Hum Jo Mast Sharaab Hote Hain,Zare Se Aaftaab Hote Hain



 چار شاعر۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک
امیر منائی ، عبدالحمید عدم ، داغ دہلوی اور میر تقی میر

*********************************
 
امیر منائی
ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
ذرے سے آفتاب ہوتے ہیں

ہے خرابات صحبت واعظ
لوگ ناحق خراب ہوتے ہیں

کیا کہیں کیسے روز و شب ہم سے
عمل ناثواب ہوتے ہیں

بادشہ ہیں گدا، گدا سلطان
کچھ نئے انقلاب ہوتے ہیں

ہم جو کرتے ہیں مے کدے میں دعا
اہل مسجد کو خواب ہوتے ہیں

وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں

کہتے ہیں مست رند سودائی
خوب ہم کو خطاب ہوتے ہیں

آنسوؤں سے امیر ہیں رسوا
ایسے لڑکے عذاب ہوتے ہیں
 
*******************
 
عبدالحمید عدم
جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند لے لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

جو پرندے کی آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دل پذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

*********************
 
داغ دہلوی
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں

گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں

جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں

وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں
زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں

بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے
ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں

ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے
کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں

خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں

ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح
جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں

نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں

بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں

طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں

جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں

کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں


*********************************

میر تقی میر
تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں

آؤ یاد بتاں پہ بھول نہ جاؤ
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں

دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس
صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں

صدقے ہولیویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں

تو کرے ہے قرار ملنے کا
ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں

ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں

رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر
فتنۂ روزگار ہوتے ہیں

اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میر جی یوں ہی خوار ہوتے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai