Main Ke Bulbul Hon Shikaari Ke Galy Me Qaid Hon,Ik Nawala Hon Main Uske Qahqahy Me Qaid Hon
میں کہ بلبل ہوں شِکاری کے گلے میں قید ہوں
اِک نوالہ ہوں میں اسکے قہقہے میں قید ہوں
ترچھی نظروں کے جو تو نے تیر مارے تھے کبھی
میں اسی ترچھی نظر کے زاویے میں قید ہوں
ایک پھّرا ہوں میں نقلِ امتحاں کے واسطے
بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں
میں ہوں بس آدھا نوالہ ، تو نے جوں چھوڑا مجھے
بس اسی دن سے میں اس نعمت کدے میں قید ہوں
تو نے اک دن مسکراکر مجھ کو دیکھا تھا کبھی
بس اسی دن سے میں دل کے عارضے میں قید ہوں
محمد خلیل الرحمٰن
*********************************
حاصلِ کُن ہوں بقا کے سلسلے میں قید ہوں
میں کہ یزداں کے لگائے قہقہے میں قید ہوں
چاکِ ہَست و بُود کے کب دائرے میں قید ہوں
میں ازَل سے اک نظر کے زاویے میں قید ہوں
نفسِ مضموں کھُل نہ پایا کیوں کسی پر ذات کا
"بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں"
اختیار و جبر گویا ہیں بلمپَت لَے میں راگ
سازِ استبداد کے ہر زمزمے میں قید ہوں
ہجر کی گھڑیاں ہوئی ہیں سب زمانوں پر محیط
وقت رک جائے جہاں اس ثانیے میں قید ہوں
میں خداؤں کا ہوں مسکن اور خدائی کا ثبوت
گو مثالِ اہرمَن ہوں، بت کدے میں قید ہوں
کَل نِبھا لوں گا تعلق روح کا میں، آج تو
عارضی سے عارضوں کے عارضے میں قید ہوں
جسمِ خاکی حدّتِ جذبات سے جلنے لگا
آگ ہے میری سرشت اور کوئلے میں قید ہوں
فاتح الدین بشیر
*********************************
زندانِ دو جہاں کی ،وُسعت میں قید ہوں
کِس کو خبر مَیں کس کی محبت میں قید ہوں
دیکھ اے اسیرِ وقت، تُو ضائع نہ کر مُجھے
مَیں بھی پلک جھپکنے کی،، ساعت میں قید ہوں
پنجرے سمیت اُڑنا بھی مُشکل نہیں مُجھے
مَیں تو ذرا بدن کی، مُروت میں قید ہُوں
صدیوں سے مَیں اَسیرِ خلا تھا ، ری ہُوا
اب کہکشاں کے جُرمِ بغاوت میں قید ہُوں
اللہ کرے کہ قیدی پرندوں کی، خیر ہو
مَیں بھی یہاں پروں کی ضرورت میں قید ہُوں
آدھا اِدھر پڑا ہُوں، بدن کے نشیب میں
آدھا مَیں لامکاں کی عمارت میں قید ہُوں
چیخیں ہیں یہ ميری کہ ميرے قہقہے ہیں یہ
دھشت میں قید ہُوں کہ مَیں وحشت میں قید ہُوں
گِننے میں کیا ثواب ، نہ گِننے میں کیا گناہ
کب سے نگاہِ یار کی، غفلت میں قید ہُوں
اِس زاوئیے سے دیکھنا ممکن نہیں ابھی
صُورت میں قید ہُوں نہ مَیں سِیرت میں قید ہُوں
نامعلوم
اِک نوالہ ہوں میں اسکے قہقہے میں قید ہوں
ترچھی نظروں کے جو تو نے تیر مارے تھے کبھی
میں اسی ترچھی نظر کے زاویے میں قید ہوں
ایک پھّرا ہوں میں نقلِ امتحاں کے واسطے
بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں
میں ہوں بس آدھا نوالہ ، تو نے جوں چھوڑا مجھے
بس اسی دن سے میں اس نعمت کدے میں قید ہوں
تو نے اک دن مسکراکر مجھ کو دیکھا تھا کبھی
بس اسی دن سے میں دل کے عارضے میں قید ہوں
محمد خلیل الرحمٰن
*********************************
حاصلِ کُن ہوں بقا کے سلسلے میں قید ہوں
میں کہ یزداں کے لگائے قہقہے میں قید ہوں
چاکِ ہَست و بُود کے کب دائرے میں قید ہوں
میں ازَل سے اک نظر کے زاویے میں قید ہوں
نفسِ مضموں کھُل نہ پایا کیوں کسی پر ذات کا
"بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں"
اختیار و جبر گویا ہیں بلمپَت لَے میں راگ
سازِ استبداد کے ہر زمزمے میں قید ہوں
ہجر کی گھڑیاں ہوئی ہیں سب زمانوں پر محیط
وقت رک جائے جہاں اس ثانیے میں قید ہوں
میں خداؤں کا ہوں مسکن اور خدائی کا ثبوت
گو مثالِ اہرمَن ہوں، بت کدے میں قید ہوں
کَل نِبھا لوں گا تعلق روح کا میں، آج تو
عارضی سے عارضوں کے عارضے میں قید ہوں
جسمِ خاکی حدّتِ جذبات سے جلنے لگا
آگ ہے میری سرشت اور کوئلے میں قید ہوں
فاتح الدین بشیر
*********************************
زندانِ دو جہاں کی ،وُسعت میں قید ہوں
کِس کو خبر مَیں کس کی محبت میں قید ہوں
دیکھ اے اسیرِ وقت، تُو ضائع نہ کر مُجھے
مَیں بھی پلک جھپکنے کی،، ساعت میں قید ہوں
پنجرے سمیت اُڑنا بھی مُشکل نہیں مُجھے
مَیں تو ذرا بدن کی، مُروت میں قید ہُوں
صدیوں سے مَیں اَسیرِ خلا تھا ، ری ہُوا
اب کہکشاں کے جُرمِ بغاوت میں قید ہُوں
اللہ کرے کہ قیدی پرندوں کی، خیر ہو
مَیں بھی یہاں پروں کی ضرورت میں قید ہُوں
آدھا اِدھر پڑا ہُوں، بدن کے نشیب میں
آدھا مَیں لامکاں کی عمارت میں قید ہُوں
چیخیں ہیں یہ ميری کہ ميرے قہقہے ہیں یہ
دھشت میں قید ہُوں کہ مَیں وحشت میں قید ہُوں
گِننے میں کیا ثواب ، نہ گِننے میں کیا گناہ
کب سے نگاہِ یار کی، غفلت میں قید ہُوں
اِس زاوئیے سے دیکھنا ممکن نہیں ابھی
صُورت میں قید ہُوں نہ مَیں سِیرت میں قید ہُوں
نامعلوم
Comments
Post a Comment