Niaz-o-Naaz K Jhagde Mitae Jate Hain,Hum Un Me Aur Wo Hum Me Samae Jate Hain
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروع راہ محبت ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ ناز حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں دامن چھڑائے جاتے ہیں
جو دل سے اٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
رواں دواں لیے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
کہاں منازل ہستی کہاں ہم اہل فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اٹھائے جاتے ہیں
مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں
الٰہی ترک محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں وہ یاد آئے جاتے ہیں
سنائے تھے لب نے سے کسی نے جو نغمے
لب جگر سے مکرر سنائے جاتے
جگر مراد آبادی
*************************
تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں
اِدھر تُو کھائے جاتا ہے اُدھر وہ کھائے جاتے ہیں
چمن والوں سے جا کر نسیمِ صبح کہہ دینا
اسِیرانِ قفض کے آج پَر کٹوائے جاتے ہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے تیرے دفنائے جاتے ہیں
اُنھیں غیروں کے گھر دیکھا ہے اور انکار ہے ان کو
میں باتیں پی رہا ہوں اور وہ قسمیں کھائے جاتے ہیں
خدا محفوظ رکھے نالہ ہائے شام فرقت سے
زمیں بھی کانپتی ہے آسماں تھرائے جاتے ہیں
کوئی دم اشک تھمتے ہی نہیں ایسا بھی کیا رونا
قمر دو چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں
استاد قمر جلالوی
*************************
نظر میں، روح میں، دل میں سمائے جاتے ہیں
ہر ایک عالمِ امکاں پہ چھائے جاتے ہیں
ہر اک قدم کو وہ منزل بنائے جاتے ہیں
تعیّنات کی وسعت بڑھائے جاتے ہیں
نگاہ مست ہے اور مُسکرائے جاتے ہیں
دو آتشہ مجھے بھر کر پلائے جاتے ہیں
جو اُٹھ سکے تھے نہ خود حُسن کے اُٹھائے سے
وہ پردہ ہائے دوئی اب اُٹھائے جاتے ہیں
جو گرسکے تھے نہ خود عشق کے گرائے سے
وہ سب حجابِ محبت گرائے جاتے ہیں
چھپا چھپا کے جنہیں مصلحت نے رکھا تھا
وہ جلوے اب سرِ محفل دکھائے جاتے ہیں
سنبھل کر اے نگہِ شوق بزمِ دوست ہے یہ
یہاں خرابِ نظر، آزمائے جاتے ہیں
نہ پوچھ، کارگہِ عشق کا طلسم نہ پوچھ
قدم قدم پہ تماشے دکھائے جاتے ہیں
پتہ نہیں کہیں ان کا اور ان کے دیوانے
تصورات کی محفل سجائے جاتے ہیں
کہاں کی لغزشِ پا، اب یہ حال ہے ساقی
کہ سر سے تا بقدم، ڈگمگائے جاتے ہیں
اُٹھا رہا ہوں میں گرمیِ شوق بن کے نقاب
وہ اپنے سر کو مسلسل جھکائے جاتے ہیں
جگر بھی شق ہے یہاں شدّتِ تجلّی سے
وہ دیکھتے ہیں مگر مُسکرائے جاتے ہیں
حجابِ حُسن پھر اس پر حجابِ شرم و شباب
جو پردے اُٹھتے ہیں گویا گرائے جاتے ہیں
یہ قصرِ حُسن ہے آتشکدہ محبت کا
بجائے شمع یہاں، دل جلائے جاتے ہیں
تمام عالمِ محسوس کانپ اُٹھتا ہے
جب آنکھ سے کہیں آنسو بہائے جاتے ہیں
ہمارا حال تو دیکھا، ہمارا ظرف بھی دیکھ
نگاہ اُٹھتی نہیں، غم اُٹھائے جاتے ہیں
تلاش لازمہء عاشقی نہیں ساغر
نہ ڈھونڈنے پہ بھی وہ ہم میں پائے جاتے ہیں
ساغر نظامی
*************************
زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں
ہم بہرحال سلیقے سے جیے جاتے ہیں
ایک دن ہم بھی بہت یاد کیے جائیں گے
چند افسانے زمانے کو دیے جاتے ہیں
ہم کو دنیا سے محبت بھی بہت ہے لیکن
لاکھ الزام بھی دنیا کو دیے جاتے ہیں
بزم اغیار سہی , ازرہ تنقید سہی
شکر ہے ہم بھی کہیں یاد کئے جاتے ہیں
ہم کیے جاتے ہیں تقلید روایاتِ جنوں
اور خود چاکِ گریبان بھی سیے جاتے ہیں
غم نے بخشی ہے یہ محتاط مزاجی ہم کو
زخم بھی کھاتے ہیں آنسو بھی پیے جاتے ہیں
حال کا ٹھیک ہے اقبال نہ فردا کا یقین
جانے کیا بات ہے ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں
اقبال عظیم
*************************
شام تک صُبْح کی نظروں سے اُتر جاتے ہیں
اِتنے سمجھوتوں پہ جِیتے ہیں کہ مرجاتے ہیں
ہم تو بے نام اِرادوں کے مُسافر ٹھہرے
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کِدھر جاتے ہیں
گھر کی گِرتی ہُوئی دِیوار ہے ہم سے اچھّی
راستہ چلتے ہُوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
اِک جُدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے سبھی وقت گُزر جاتے ہیں
پھر وہی تلخئ حالات مُقدّر ٹھہری
نشے کیسے بھی ہوں کُچھ دِن میں اُتر جاتے ہیں
وسیم بریلوی
*************************
جب کبھی ہم ترے کوچے سے گزر جاتے ہیں
لوحِ ادراک پہ کچھ اور ابھر جاتے ہیں
حسن سے لیجئے تنظیمِ دو عالم کا سبق
صبح ہوتی ہے تو گیسو بھی سنور جاتے ہیں
ہم نے پایا ہے محبت کا خمارِ ابدی
کیسے ہوتے ہیں وہ نشے کہ اتر جاتے ہیں
اتنے خائف ہیں مے و مہ سے جنابِ واعظ
نامِ کوثر بھی جو سنتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں
مے کدہ بند، مقفل ہیں درِ دَیر و حرم
دیکھنا ہے کہ شکیل آج کدھر جاتے ہیں
شکیل بدایونی
*************************
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں
نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
جاوید اختر
Comments
Post a Comment