Aik Radeef 33 Shair "Zamane Lag Jaein"
ایک ردیف، 33 شاعر
"زمانے لگ جائیں"
احمد فراز، عرفان صدیقی، فرحت احساس، اکرم نقاش، منصور آفاق، رؤف خیر، نادم ندیم، احمد اشفاق، شبانہ یوسف، فرتاش سید، ریحانہ روحی، قیوم طاہر،خالد علیم، عباس تابش، ،محسن علوی ،ندیم ساحر ،بیدل حیدری، نوید صادق ،سعید الظفر صدیقی، احمد علی برقی، سلیم کوثر،فاتح الدین بشیر،زین شکیل ،تنویر سیٹھی، عادل رشید، نامعلوم، رام ریاض ،صباحت عاصم واسطی، رحمان فارس، راشد امین، محسن احسان، مختار الدین مختار، حماد اظہر
******************************
(1)
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فراز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
احمد فراز
******************************
(2)
اس کی تمثال کو پانے میں زمانے لگ جائیں
ہم اگر آئینہ خانوں ہی میں جانے لگ جائیں
کیا تماشا ہے کہ جب بکنے پہ راضی ہو یہ دل
اہل بازار دکانوں کو بڑھانے لگ جائیں
پاؤں میں خاک ہی زنجیر گراں ہے کہ نہیں
پوچھنا لوگ جب اس شہر سے جانے لگ جائیں
عاشقی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
زخم کھایا ہے تو کیا حشر اٹھانے لگ جائیں
اور کس طرح کریں حسن خداداد کا شکر
شعر لکھنے لگیں تصویر بنانے لگ جائیں
کچھ تو ظاہر ہو کہ ہیں جشن میں شامل ہم لوگ
کچھ نہیں ہے تو چلو خاک اڑانے لگ جائیں
عرفان صدیقی
******************************
(3)
پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
تیرے پیچھے بھی جو ہم جیسے دوانے لگ جائیں
اس کا منصوبہ یہ لگتا ہے گلی میں اس کی
ہم یوں ہی خاک اڑانے میں ٹھکانے لگ جائیں
سوچ کس کام کی رہ جائے گی تیری یہ بہار
اپنے اندر ہی اگر ہم تجھے پانے لگ جائیں
سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ
تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں
رات بھر روتا ہوں اتنا کہ عجب کیا اس میں
ڈھیر پھولوں کے اگر مرے سرہانے لگ جائیں
دشت کرنا ہے ہمیں شہر کے اک گوشے کو
تو چلو کام پہ ہم سارے دوانے لگ جائیں
فرحت احساس اب ایسا بھی اک آہنگ کہ لوگ
سن کے اشعار ترے ناچنے گانے لگ جائیں
فرحت احساس
******************************
(4)
کوئی سنتا ہی نہیں کس کو سنانے لگ جائیں
درد اگر اٹھے تو کیا شور مچانے لگ جائیں
بھید ایسا کہ گرہ جس کی طلب کرتی ہے عمر
رمز ایسا کہ سمجھنے میں زمانے لگ جائیں
آ گیا وہ تو دل و جان بچھے ہیں ہر سو
اور نہیں آئے تو کیا خاک اڑانے لگ جائیں
تیری آنکھوں کی قسم ہم کو یہ ممکن ہی نہیں
تو نہ ہو اور یہ منظر بھی سہانے لگ جائیں
وحشتیں اتنی بڑھا دے کہ گھروندے ڈھا دیں
سبز شاخوں سے پرندوں کو اڑانے لگ جائیں
ایسا دارو ہو رہ عشق سے باز آئیں قدم
ایسا چارہ ہو کہ بس ہوش ٹھکانے لگ جائیں
اکرم نقاش
******************************
(5)
تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ
چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں
یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لئے
آسماں تیرے ستاروںکے خزانے لگ جائیں
خوبصورت بھی ، اکیلی بھی ، پڑوسن بھی ہے
لیکن اک غیرسے کیاملنے ملانے لگ جائیں
نیک پروین ! تری چشمِ غلط اٹھتے ہی
مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں
پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
منصور آفاق
******************************
(6)
ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں
خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں
دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں
پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں
اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں
ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں
ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں
دعوئ خوش سخنی خیر ابھی زیب نہیں
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں
رؤف خیر
******************************
(7)
ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں
تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں
پھر نہ ہو مخملی تکیے کی ضرورت مجھ کو
تیرے بازو جو کبھی میرے سرہانے لگ جائیں
چاند تاروں میں بھی تب نور اضافی ہو جائے
چھت پہ جب ذکر ترا یار سنانے لگ جائیں
چند سکوں پہ تم اترائے ہوئے پھرتے ہو
ہاتھ مفلس کے کہیں جیسے خزانے لگ جائیں
کیوں نہ پھر شاخ شجر پھول سبھی مرجھائیں
بھائی جب صحن میں دیوار اٹھانے لگ جائیں
اس نے دو لفظ میں جو باتیں کہیں تھی مجھ سے
اس کو میں سوچنے بیٹھوں تو زمانے لگ جائیں
پھر زمانے میں نہ ہو کوئی پریشاں نادم
تیرے جیسے بھی نکمے جو کمانے لگ جائیں
نادم ندیم
******************************
(8)
ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں
ریگ زاروں میں پھریں خاک اڑانے لگ جائیں
ڈھونڈتا رہتا ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں تجھے
چاہتا ہوں مرے ہاتھوں میں خزانے لگ جائیں
یہ الگ بات کہ تجدید تعلق نہ ہوا
پر اسے بھولنا چاہوں تو زمانے لگ جائیں
شہر بے شکل میں اے کاش کبھی ایسا ہو
حسب ترتیب کئی آئینہ خانے لگ جائیں
احمد اشفاق
******************************
(9)
ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں
لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اٹھانے لگ جائیں
یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص
ہم اسے بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں
شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے
اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں
خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں
اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے
ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں
ایک مدت سے یہ تنہائی میں جاگے ہوئے لوگ
خواب دیکھیں تو نیا شہر بسانے لگ جائیں
شبانہ یوسف
******************************
(10)
صف ماتم پہ جو ہم ناچنے گانے لگ جائیں
گردش وقت! ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
وہ تو وہ اس کی معیت میں گزارا ہوا پل
جو بھلائیں تو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
مرے قادر! جو تو چاہے تو یہ ممکن ہو جائے
رفتگاں شہر عدم سے یہاں آنے لگ جائیں
بزم دنیا سے چلوں ایسا نہ ہو سب مرے یار
ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ کے جانے لگ جائیں
خواہش وصل! ترا کیا ہو جو ہم سال بہ سال
عشرۂ سوز غم ہجر منانے لگ جائیں
ہم سمجھ پائے نہ فرتاش مزاج خوباں
دل چرائیں تو کبھی آنکھیں چرانے لگ جائیں
فرتاش سید
******************************
(11)
دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں
واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں
سو نہیں پائیں تو سونے کی دعائیں مانگیں
نیند آنے لگے تو خود کو جگانے لگ جائیں
اس کو ڈھونڈیں اسے اک بات بتانے کے لیے
جب وہ مل جائے تو وہ بات چھپانے لگ جائیں
ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں
اتنی تاخیر سے مت مل کہ ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں
جیت جائیں گی ہوائیں یہ خبر ہوتے ہوئے
تیز آندھی میں چراغوں کو جلانے لگ جائیں
تم مرے شہر میں آئے تو مجھے ایسا لگا
جوں تہی دامنوں کے ہاتھ خزانے لگ جائیں
ریحانہ روحی
******************************
(12)
خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں
درد جاگے تو سلانے میں زمانے لگ جائیں
ہم وہ نادان ہواؤں سے وفا کی خاطر
اپنے آنگن کے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تھوڑے گیہوں ابھی مٹی پہ رکھے رہنے دو
وہ پرندے کہ کبھی لوٹ کے آنے لگ جائیں
آس مہکے جو کسی کھوئے جزیرے کی کبھی
تیری بانہیں مجھے ساحل پہ بلانے لگ جائیں
کوئی دشمن نہ ہو ان کو تو یہ ایذا پرور
اپنے خیموں پہ ہی تیروں کو چلانے لگ جائیں
قیوم طاہر
******************************
(13)
ہم ہی، ممکن ہے، ترے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ چلو ہم ہی رہیں گے لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
ریزہ ریزہ جنھیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
وہی چپکے سے مری خاک اڑانے لگ جائیں
میری جاں! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
قریۂ گل پہ تگ و تاز اٹھانے لگ جائیں
روکتے روکتے بھی آنکھ چھلک اٹھتی ہے
کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں
تم نے باندھا ہے جنھیں تار نظر سے خالد
وہی دریا نہ کہیں آگ لگانے لگ جائیں
خالد علیم
******************************
(14)
تیرے گمنام اگر نام کمانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں
جس طرح نور سے پیدا ہے جہانِ اشیاء
اک نظر ڈال کے ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
دیکھ اے حسنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
جن کے ہونے سے ہے مشروط ہمارا ہونا
اپنے ہونے کا نہ احساس دلانے لگ جائیں
تو محبّت کی غرض لمحہء موجود سے رکھ
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں
یہ محبّت نہ کہیں ردِعمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
کارِ دُنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں
پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں
عباس تابش
******************************
(15)
ہم اگر دل کا تمھیں حال سنانے لگ جائیں
حالِ دل سُننے میں تم کو بھی زمانے لگ جائیں
تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے لگ جائیں
کبھی گزرے ہوئے موسم کبھی بیتے ہوئے دن
یاد آجائیں تو پھر ہم کو رُلانے لگ جائیں
واہ رے کشمکشِ وقتِ محبت کے نثار
کبھی رنجش ہو تو پھر ساتھ نِبھانے لگ جائیں
ہم نے خود کو بھی یہی سوچ کے روکے رکھا
جانے کیا ہو جو اگر تیر نشانے لگ جائیں
جانے کیا رسم چلی ہے تری دنیا میں خُدا
سر اٹھاتا ہوں تو سب لوگ گِرانے لگ جائیں
دردِ دل اُس پہ یہ انداز، کہیں کیا خود کو
کوئی مل جائے تو ہم شعر سُنانے لگ جائیں
دل تو دشمن کے کسی وار سے زخمی نہ ہوا
پر اگر دوست جو اب تیر اُٹھانے لگ جائیں
ان کی قربت کی مہک مجھ پہ عجب رنگ بنے
مِرے دل پر مِرے احساس پہ چھانے لگ جائیں
یہی خواہش ہے زمانے کے بھلے کی خاطر
چاہے دل سے بھی کوئی مانے نہ مانے لگ جائیں
میری مٹی تری اُلفت میں تمنا دل کی
دل کی دھڑکن پہ فقط تیرے ترانے لگ جائیں
دوستی تیرا بھلا ہو، کہ ترا نام تو ہے
ورنہ سب لوگ مِرے دل کو جلانے لگ جائیں
رب کی الفت کے ہوں صدقے اسی عظمت کے نثار
اسکی رحمت ہو تو، ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
انکے انداز پہ یہ سوچ کے خاموش رہے
وہ کہیں ہم سے محبت نہ چھپانے لگ جائیں
داستاں سُن کے ہر اک شخص ہی رنجیدہ ہو
داستانوں میں اگر میرے فسانے لگ جائیں
حُسن نے خود کو سنوارا ہے، خدا خیر کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ جائیں
درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ جائیں
محسن علوی
******************************
(16)
ہم درختوں کو اگر خواب سنانے لگ جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں
آخری پل ہے ذرا بیٹھ کہ باتیں کر لیں
عین ممکن ہے پلٹنے میں زمانے لگ جائیں
ہم نوافل میں ترے نام کی تسبیح کریں
یوں بھی مسجد میں ترا ہجر منانے لگ جائیں
کوزہ گر تم سے مرے خواب نہیں ٹھیک بنے
بس یہی سوچ کے پھر چاک گھمانے لگ جائیں
حضرتِ قیس ترے خواب کی بیعت کر کے
ہم کسی دشت میں پھر نام کمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ ترا ہجر سہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
ہم ہیں تنہائی کے مارے ہوئے کمرے کے مکیں
جو بھی مل جائے اسے دوست بنانے لگ جائیں
ہم نئے دور کے عاشق بھی عجب ہیں کہ ندیم
جو بھی مل جائے اسے شعر سنانے لگ جائیں
ندیم ساحر
******************************
(17)
ہم کبھی شہرِمحبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحہ فرصت کا جو میّسر آجائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جـــــائیں
انتظار اُس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنـــا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرا بنانے لگ جائیں
ہم بھی کیا اہلِ قلم ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں خود ہی مٹانے لگ جایئں
عجب انسان ہیں ہم بھی کہ خطوں کو اُن کے
خود ہی محفوظ کریں خود ہی جلانے لگ جایئں
وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پل میں
ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جایئں
اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن میں خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جایئں
نہیں جلتا تو اُترتا نہیں قرضِ ظلمـت
جلنا چاہوں تو مجھے لوگ بجھانے لگ جائیں
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیــــدل
باہر آؤں تو اُجالے مجھے کھانے لگ جائیں
بیدل حیدری
******************************
(18)
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
تیری تکریم بھی لازم ہے شبِ اوجِ وصال
پر یہ ڈر ہے کہ یہ لمحے نہ ٹھکانے لگ جائیں
کچھ نمو کے بھی تقاضے ہیں سرِ کشتِ خیال
ورنہ ہم لوگ تو بس خاک اُڑانے لگ جائیں
ایک لمحے کی ملاقات کا خاموش سفر
ان کہے لفظ نہ اب شور مچانے لگ جائیں
وہ رفاقت، وہ فسانہ، وہ تماشا، وہ خلوص
کوئی عنوان تلاشیں تو زمانے لگ جائیں
ہم سمجھتے ہیں ستم زاد قبیلوں کو نوید
پیڑ سرسبز، گھنا ہو تو گرانے لگ جائیں
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں
ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں
ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
ہم ہی، ممکن ہے ترے ناز اُٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اُٹھانے لگ جائیں
ریزہ ریزہ، جنہیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
وہی چپکے سے مری خاک اُڑانے لگ جائیں
میری جاں ! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
قریۂ گُل پہ تگ و تاز اُٹھانے لگ جائیں
روکتے روکتے بھی، آنکھ چھلک اُٹھتی ہے
کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں
نوید صادق
******************************
(19)
دیکھتے ہیں جو اگر ہم وہ سنانے لگ جائیں
اچھے اچھوں کے میاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں
کتنے خوش فہم ہیں کچھ لوگ تری محفل میں
ہو اجازت تو ہم آئینہ دکھانے لگ جائیں
ایک ہی پَل میں کبھی عمر گزر جاتی ہے
اور کسی پَل کو بِتانے میں زمانے لگ جائیں
پھر نہ کر دیں نظر انداز ہم اپنے دل کو
پھر کسی اور کی باتوں میں نہ آنے لگ جائیں
پھر یہ رستے نہ سرابوں کے حوالے کر دیں
پھر یہ آنکھیں نہ کہیں خواب دکھانے لگ جائیں
جاں بلب ہونے میں اک عمر لگی ہے دیکھو
کتنے دن جان سے جانے میں نہ جانے لگ جائیں
سعید الظفر صدیقی
******************************
(20)
بزم میں نغمۂ جاں بخش سنانے لگ جائیں
جوہرِ حسنِ بیاں اپنا دکھانے لگ جائیں
ہے ارادہ یہ بیاں آج کروں سوزِ دروں
سن کے ایسا نہ ہو وہ اشک بہانے لگ جائیں
اِس سے پہلے کہ خزاں کے ہوں نمایاں آثار
باغِ ہستی میں نیا پھول کھلانے لگ جائیں
عزتِ نفس کا سودا نہ کروں گا ہرگز
کہیں ایسا نہ ہو وہ مجھ کو ستانے لگ جائیں
جان میں جان ہے جب تک رہیں سرگرمِ عمل
وہ گراتا ہے اگر آپ بنانے لگ جائیں
آپ کے ساتھ اگر کوئی کرے حُسنِ سلوک
آپ بھی حُسنِ عمل اُس سے نبھانے لگ جائیں
آج ہے جشن کا ماحول نہ کیوں اے برقی
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
احمد علی برقی
******************************
(21)
زخمِ احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
جس کو ہر سانس میں محسوس کیا ہے ہم نے
ہم اُسے ڈھونڈنے نکلیں تو زمانے لگ جائیں
اَبر سے اب کے ہواؤں نے یہ سازش کی ہے
خشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں
کاش اب کے ترے آنے کی خبر سچی ہو
ہم مُنڈیروں سے پَرندوں کو اُڑانے لگ جائیں
شعر کا نشّہ جو اُترے کبھی اک پَل کے لئے
زندگی ہم بھی ترا قرض چُکانے لگ جائیں
سوچتے یہ ہیں ترا نام لکھیں آنکھوں پر
چاہتے یہ ہیں تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں
اِس طرح دن کے اجالے سے ڈرے لوگ سلیم
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
سلیم کوثر
******************************
(22)
داستانِ شبِ غم گر وہ سنانے لگ جائیں
سننے والوں کے تو بس ہوش ٹھکانے لگ جائیں
ہم ہواؤں میں نہ کیوں اڑنے اڑانے لگ جائیں
آ کے سینے سے جو کچھ یار پرانے لگ جائیں
ہاتھ عصیاں کے بھی کچھ اور بہانے لگ جائیں
تیری ہیبت کو جو بخشش سے ملانے لگ جائیں
نالۂ دہر مباح، ان کو ہے تعذیب عزیز
کیا نکیرین بھی آواز ملانے لگ جائیں
قیسِ رم خوردہ کی لے کچھ تو خبر لیلیٰ جان
اس کو آہوئے ختن ہی نہ رجھانے لگ جائیں
عشقِ لیلیٰ میں ہُوا ہے سگِ لیلیٰ بھی عزیز
ایرے غیروں کے بھی ہم ناز اٹھانے لگ جائیں
ایک مجمع ہے ہُوا طالبِ مرہم نظری
چارہ گر بھی نہ فقط آس دلانے لگ جائیں
فاتح الدین بشیر
******************************
(23)
عشق میں خاک جو دَر دَر کی اڑانے لگ جائیں
وہ بھلا کیسے تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں
ہم کہیں جائیں تری سمت چلے جاتے ہیں
جیسے رستے ہی تری سمت کو جانے لگ جائیں
ایسے بے مہر ہیں پہلے تجھے ڈھونڈیں ہر سُو
اور پاتے ہی تجھے پھر سے گنوانے لگ جائیں
حسنِ یزداں کا کہا کیا کہ یہی چاہتا ہے
ایک دیوار سے سارے ہی دِوانے لگ جائیں
ہم اسیران محبت کا یہی کام ہے بس
زخم میں رنگ بھریں، درد کمانے لگ جائیں
مثلِ درویش تجھے ماننے والے کچھ لوگ
آستانے سے ترے ہم کو اُٹھانے لگ جائیں
رات دن بس اسی صورت ہی کٹے جاتے ہیں
اک تجھے یاد کریں، تجھ کو بھلانے لگ جائیں
ایسی تاریک شبوں بیچ پڑے ہیں جن میں
نیند بھی جبر کرے، خواب ڈرانے لگ جائیں
یوں ترے ہجر میں ہم رکھیں بہت اپنا خیال
اشک ہی پینے لگیں، درد ہی کھانے لگ جائیں
اے مرے ہوش رُبا شہر کو مت چھوڑ کے جا
یہ نہ ہو لوگ ترے شہر سے جانے لگ جائیں
کاش کہ حشر میں رو رو کے ترے سارے ستم
میرے کاندھوں کے فرشتے بھی سنانے لگ جائیں
زین اب دل میں فقط ایک یہی حسرت ہے
وہ مرے نام کو لکھ لکھ کے مٹانے لگ جائیں
زین شکیل
******************************
(24)
ہم اگر قصہ فرہاد سنانے لگ جائیں
رات کٹنے بھی ممکن ہے زمانے لگ جائیں
ہم تم رکھتے ہیں محبت کے تسلسل پہ یقیں
ہم نہی وہ جو نۓ دوست بنانے لگ جائیں
شورش وقت میں گمنام ہی رہنا اچھا
کیا کریں لوگ جہاں نام کمانے لگ جائیں
کس طرح ٹھہرے کوئ شب بسری کی خاطر
پیڑ جب خود ہی پرندوں کو اڑانے لگ جائیں
میرے بچ جانے کی امید ہے اب تک قاءم
میرے ملبے کو اگر آپ ہٹانے لگ جائیں
کسی چشمے کو ابھی تک نہیں معلوم کہ ہم
اور بڑھتی ہے اگر پیاس بجھانے لگ جائیں
میرے اشعار ادا ہوں تیرے ہونٹوں سے اگر
ٹوٹے پھوٹے میرے الفاظ ٹھکانے لگ جائیں
دن نکلنے کی دعا مانگنے والے تنویر
تنگ آکر نہ کہیں شہر جلانے لگ جائیں
تنویر سیٹھی
******************************
(25)
ہم جو اک پل کو کسی غیر کے شانے لگ جائیں
تو میری جان تیرے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
ہم ترے چاہنے والے ہیں، تجھے یاد رہے
جانے کب کوچے میں ہم خاک اُڑانے لگ جائیں
اس سے کہنا کہ نگاہیں بھی نہیں اٹھ سکتیں
ہم جو اپنے کبھی احسان گنانے لگ جائیں
ہم طرفدارِ محبت ہیں مگر اتنے نہیں
ایسے ویسے بھی ہمیں آنکھ دکھانے لگ جائیں
شمس بھی ڈوب گیا شام ڈھلی رات ھوئی
کہہ دو یادوں سے کہ اب ناچنے گانے لگ جائیں
دل تو ٹوٹا ہے ہمارا بھی محبت میں مگر
آپ کے جیسے کہ ہم شور مچانے لگ جائیں
عادل رشید
******************************
(26)
قصہِ ہجر اگر تجھ کو سُنانے لگ جائیں
اے میری جاں عمر نہیں اس میں زمانے لگ جائیں
میں نے اِس خوف سے غم تجھ سے چُھپائے ہیں
میرے آنسو تیری آنکھوں سے نہ آنے لگ جائیں
کاش ایسا ہو کبھی میں کچھ نہ کہوں تجھ سے
میری آنکھیں میرے احوال بتانے لگ جائیں
رت جگے کِھلنے لگے پھر سے میری نیندوں میں
روگ مجھ کو نہ کہیں پھر سے پُرانے لگ جائیں
ایسے عالم میں تُجھے بھولنا مُمکن ہے کہ جب
سارے موسم ہی تیری یاد دلانے لگ جائیں
اے میرے ناداں دلِ عشق تجھ سے شکایت کیسی
جب میرے خواب ہی خود مجھ کو جلانے لگ جائیں
ہاں مجھے ناز ہے آشُفتہ سری پے اپنی
راہ دیکھوں گا بھلے تجھ کو زمانے لگ جائیں
نامعلوم
******************************
(27)
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں
ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں
ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
رام ریاض
******************************
(28)
چلئے ہم ہی ترا بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ ترے جسم کو شانے لگ جائیں
یوں نہ ہو کوئی مکینوں کی نہ سوچے عاصم
آگ ہی صرف رضا کار بجھانے لگ جائیں
صباحت عاصم واسطی
******************************
(29)
آپ کی آنکھیں اگر شعر سُنانے لگ جائیں
ھم جو غزلیں لیے پھرتے ھیں ، ٹھکانے لگ جائیں
ھم تہی ظرف نہیں ھیں کہ محبت کر کے
کسی احسان کے مانند جتانے لگ جائیں
رحمان فارس
******************************
(30)
جیب میں رکھ لوں ترے شہر میں دونوں آنکھیں
گاؤں جانے میں مجھے پھر نہ زمانے لگ جائیں
تُو بگڑتا ہے تو ہم تجھ کو منا لیتے ہیں
ہم جو بگڑیں تو ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
راشد امین
******************************
(31)
اب کے صیاد جو دوچار ٹھکانے لگ جائیں
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
محسن احسان
******************************
(32)
اب یہ حسرت ہے کہ ہر بات بھلا کر مختار
خواب آنکھوں میں مدینے کے سجانے لگ جائیں
مختار الدین مختار
******************************
(33)
ایک ناکام محبت کا حوالہ ہے بہت
کیا ضروری ہے کہانی ہی سنانے لگ جائیں
حماد اظہر
Comments
Post a Comment