Aik Radeef "Bhi Buhat Hai" 4 Shair
ایک ردیف بھی بہت ہے
4 شاعر
میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے
گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے
دم ساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں
ڈھونڈا بھی بہت ہم نے پکارا بھی بہت ہے
اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں
کچھ تلخئ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے
انجام وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے
سنتے ہیں خیال ان کو ہمارا بھی بہت ہے
کچھ راس بھی آتی نہیں افسر کو مسرت
کچھ یہ کہ وہ حالات کا مارا بھی بہت ہے
افسر ماہ پوری
************************
کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے
کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے
اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ
کلیوں کے لیے قطرۂ شبنم بھی بہت ہے
ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا
سازش نگہ و دل کی منظم بھی بہت ہے
ہے رشتۂ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شے
قائم یہ ہوا پر بھی ہے محکم بھی بہت ہے
ڈھائے دل نازک پہ بہت اس نے ستم بھی
پھر لطف یہ ہے مجھ پہ وہ برہم بھی بہت ہے
یہ طرفہ تماشہ ہے کیا قتل بھی مجھ کو
اور پھر مرے مرنے کا انہیں غم بھی بہت ہے
پڑتے ہیں ستم گر کے ذرا وار بھی اوچھے
اور فضلی بسمل میں ذرا دم بھی بہت ہے
فضل احمد کریم فضلی
**************************
بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے
اس دشت میں گرداب کی صورت بھی بہت ہے
آنکھیں جو لیے پھرتا ہوں اے خواب مسلسل!
میرے لیے یہ کار اذیت بھی بہت ہے
تم زاد سفر اتنا اٹھاؤ گے کہاں تک
اسباب میں اک رنج مسافت بھی بہت ہے
دو سانس بھی ہو جائیں بہم حبس بدن میں
اے عمر رواں! اتنی کرامت بھی بہت ہے
کچھ اجرت ہستی بھی نہیں اپنے مطابق
کچھ کار تنفس میں مشقت بھی بہت ہے
اب موت مجھے مار کے کیا دے گی غضنفر
آنکھوں کو تو یہ عالم حیرت بھی بہت ہے
غضنفر ہاشمی
***************************
شکوے بھی ہزاروں ہیں شکایت بھی بہت ہے
اس دل کو مگر اس سے محبت بھی بہت ہے
آ جاتا ہے ملنے وہ تصور میں سر شام
اک شخص کی اتنی سی عنایت بھی بہت ہے
یہ بھی ہے تمنا کے اسے دل سے بھلا دیں
اس دل کو مگر اس کی ضرورت بھی بہت ہے
نامعلوم
Comments
Post a Comment