Aik Radeef " Ke Beech" Me 23 Ghazlein



ایک ردیف کے بیچ میں 23 غزلیں
***********************
میر محمدی بیدار
کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ
پارۂ بےکار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی
راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ
صاف کر دل تاکہ ہو آئینہ رخسار یار
مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ
ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو
آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ
دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام
تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ
کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے
گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ
کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر
جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ
کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گل زار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدار تو
گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ
****************************
نظیر اکبرآبادی
اس کے بالا ہے اب وہ کان کے بیچ
جس کی کھیتی ہے جھوک جان کے بیچ
دل کو اس کی ہوا نے آن کے بیچ
کر دیا باؤلا اک آن کے بیچ
آتے اس کو ادھر سنا جس دم
آ گئی انبساط جان کے بیچ
راہ دیکھی بہت  نظیر اس کی
جب نہ آیا وہ اس مکان کے بیچ
پان بھی پانداں میں بند رہے
عطر بھی قید عطر دان کے بیچ
********************
عارف امام
سب لہو جم گیا ابال کے بیچ
کون یاد آ گیا وصال کے بیچ
ایک وقفہ ہے زندگی بھر کا
زخم کے اور اندمال کے بیچ
آن بیٹھا ہے ایک اندیشہ
گفتگو اور عرض حال کے بیچ
تال دیتی ہے جب کبھی وحشت
رقص کرتا ہوں میں خیال کے بیچ
کبھی ماتم میان رقص کیا
کبھی سجدہ کیا دھمال کے بیچ
ایک پردہ ہے بے ثباتی کا
آئینے اور ترے جمال کے بیچ
اک برس ہو گیا اسے دیکھے
اک صدی آ گئی ہے سال کے بیچ
میرے دامن کو دھونے والا ہے
ایک آنسو جو ہے رومال کے بیچ
********************
عباس تابش
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ
جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر
زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ
میرے اس کوشش میں بازو کٹ گئے
چاہتا تھا صلح تلواروں کے بیچ
وہ جو میرے گھر میں ہوتا تھا کبھی
اب وہ سناٹا ہے بازاروں کے بیچ
تم نے چھوڑا تو مجھے یہ طائراں
بھر کے لے جائیں گے منقاروں کے بیچ
تجھ کو بھی اس کا کوئی احساس ہے
تیری خاطر ٹھن گئی یاروں کے بیچ
***********************
عبید اللہ علیم
ایک میں بھی ہوں کلہ داروں کے بیچ
 میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ
روشنی آدھی ادھر آدھی ادھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانہ تھے نظاروں کے بیچ
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
کھا گیا انساں کو آشوب معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
میں فقیر ابن فقیر ابن فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
اہل دل کے درمیاں تھے میر تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیم
اک محمد مصطفی ساروں کے بیچ
**************************
گنیش بہاری طرز
اب کیا بتائیں کیا تھا سماں پیرہن کے بیچ
جذبات ہو رہے تھے جواں پیرہن کے بیچ
کیا جھلملی بھی روکتی گورے بدن کی آنچ
پگھلا ہوا تھا شعلہ رواں پیرہن کے بیچ
**********************
ماتم فضل محمد
تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
عشق کے ہوں میں دل افگاروں کے بیچ
عشق ہے سیر خدا اے دوستاں
اس لئے اشرف ہے اسراروں کے بیچ
منزل دور و دراز عشق میں
غم کو پایا ہم نے غم خواروں کے بیچ
دوستاں ہے لا دوا دور از شفا
عشق کا آزار آزاروں کے بیچ
اب تو ہے کنج قفس گھر پر کبھی
بلبلو تھے ہم بھی گلزاروں کے بیچ
کیا کہیں ہم کہہ نہیں سکتے ہیں یار
اندکوں میں ہے کہ بسیاروں کے بیچ
جس کے جویا مومن و مشرک ہیں وہ
سبحوں میں ہے نہ زناروں کے بیچ
رحم کر ہم پر بھی دل بر ہیں ترے
عشق کے ہاتھوں سے آواروں کے بیچ
گل نے تا دعوی کیا رخ سے ترے
بے قدر بکتا ہے بازاروں کے بیچ
یا حسین ابن علی ماتم کو بھی
کیجے داخل اپنے زواروں کے بیچ

*****************************
محسن خان محسن
آج دی تعلیم گت گت کی مجھے تالوں کے بیچ
اب نہ آؤں گی کبھی استاد کی چالوں کے بیچ
چوم کر زلف دوتا پھنستا نہیں جالوں کے بیچ
صاف بچ جاتا ہے گورا سیکڑوں کالوں کے بیچ
میں تو خود کہتی ہوں باجی خاک ڈالوں شیخ پر
پھانس لیتا ہے نگوڑا پیار کی چالوں کے بیچ
بھولا پن خود کر رہا ہے سرخیٔ لب سے حضور
سوت کی بیڑی بھری ہے آج ان گالوں کے بیچ
ہوتے تھے دو چار دولہا پہلے کیا کیا پیار سے
بگڑے اب کیا کیا بوا دو چار ہی سالوں کے بیچ
نوج لوں شالیں کسی کی میں بوا شل ہو گئی
بھیجے خط سوکن کے مجھ کو ڈال کر شالوں کے بیچ
اپنی بدحالی پہ گوئیاں تھا فلک نالہ کناں
آج پھر شکر خدا ہم بھی ہیں خوشحالوں کے بیچ
بات ہے بگڑی گھڑی کی صاف جو ہوتے نہیں
چلتے پرزے ہیں مجھے لاتے ہیں وہ چالوں کے بیچ
سنتے ہی بے چین ہو کر آ گئے ڈولی میں ہم
کس بلا کا ہے اثر  محسن ترے نالوں کے بیچ
************************
میر اثر
دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
آ پڑا مفت میں عذاب کے بیچ
کون رہتا ہے تیرے غم کے سوا
اس دل خانماں خراب کے بیچ
تیرے آتش زدوں نے مثل شرار
عمر کاٹی ہے اضطراب کے بیچ
کیا کہوں تجھ سے اب کے میں تجھ کو
کس طرح دیکھتا ہوں خواب کے بیچ
شمع فانوس میں نہ جب کے چھپے
کب چھپے ہے یہ منہ نقاب کے بیچ
ٹک تبسم نے کی شکر ریزی
بارے اب تلخیٔ عتاب کے بیچ
کیا کہے وہ کہ سب ہویدا ہے
شان تیری تری کتاب کے بیچ
ہے غلامی اثر کو حضرت  درد
بہ دل و جاں تری جناب کے بیچ
*********************
حسین تاج رضوی
الجھنیں اتنی تھیں منظر اور پس منظر کے بیچ
رہ گئی ساری مسافت میل کے پتھر کے بیچ
رخ سے یہ پردہ ہٹا بے ہوش کر مجھ کو طبیب
گفتگو جتنی بھی ہو پھر زخم اور نشتر کے بیچ
اس کو کیا معلوم احوال دل شیشہ گراں
ورنہ آ جاتا کبھی تو ہاتھ اور پتھر کے بیچ
شوق سجدہ بندگی وارفتگی اور بے خودی
معتبر سب اس کی چوکھٹ اور میرے سر کے بیچ
اک قیامت حسن اس کا اور وہ بھی جلوہ گر
میں فقط مبہوت جادو اور جادوگر کے بیچ
میں بھی خودداری کا مارا تھا صفائی کچھ نہ دی
اس نے بھی مطلب نکالے لفظ اور تیور کے بیچ
وقت اور مصروفیت کے مسئلے سب اک طرف
دوریاں اتنی نہیں تھیں تاج اپنے گھر کے بیچ
**************************
سرسوتی سرن کیف
کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ
جیسے کوئی ٹوٹی کشتی پھنس جائے منجدھار کے بیچ
ان کے آگے گھنٹوں کی عرض وفا اور کیا پایا
ایک تبسم مبہم سا اقرار اور انکار کے بیچ
دونوں ہی اندھے ہیں مگر اپنے اپنے ڈھب کے ہیں
ہم تو فرق نہ کر پائے کافر اور دیں دار کے بیچ
عشق پہ بو الہوسی کا طعن یہ بھی کوئی بات ہوئی
کوئی غرض تو ہوتی ہے پیار سے ہر ایثار کے بیچ
یوں تو ہمارا دامن بس ایک پھٹا کپڑا ہے مگر
ڈھونڈھو تو پاؤ گے یہاں سو سو دل ہر تار کے بیچ
جیسے کالے کیچڑ میں اک سرخ کمل ہو جلوہ نما
ایسے دکھائی دیتے ہو ہم کو تو اغیار کے بیچ
یہ ہے دیار عشق یہاں کیف خرد سے کام نہ لے
فرق نہیں کر پائے گا مجنوں و ہشیار کے بیچ
*****************************
سید نصیر شاہ
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ
لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیٔ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ
کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانہ خراب کے بیچ
ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ
برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ
 نصیر آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ

****************************
شاہ نصیر
گھٹ کے رہ جاؤں گا بے احساس غم خواروں کے پیچ
آ گیا ہوں اپنے ہی کمرے کی دیواروں کے بیچ
میں مرا دل رات پیلا چاند تیری یاد کا
مر رہی ہے اک کہانی اپنے کرداروں کے بیچ
مرتعش ہیں چند سانسیں تو سکوت شہر میں
کوئی تو زندہ ہے اس ملبے کے انباروں کے بیچ
گھٹ کے مر جائیں ندامت سے نہ اپنے رہنما
پھنس گئی ہیں گردنیں تحسین کے ہاروں کے بیچ
*************************
شاہد ذکی
زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ
میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا رہ گزر کے بیچ
اترا لحد میں خواہشوں کے ساتھ آدمی
جیسے مسافروں بھری ناؤ بھنور کے بیچ
دشمن سے کیا بچائیں گی یہ جھاڑیاں مجھے
بچتے نہیں یہاں تو پیمبر شجر کے بیچ
جتنا اڑا میں اتنا الجھتا چلا گیا
اک تار کم نما تھا مرے بال و پر کے بیچ
دیتے ہو دستکیں یہاں سر پھوڑتے ہو واں
کچھ فرق تو روا رکھو دیوار و در کے بیچ
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھی
میں نے اسے بھی رکھ لیا رخت سفر کے بیچ
تھکنے کے ہم نہیں تھے مگر اب کے یوں ہوا
دیتا رہا فریب ستارہ سفر کے بیچ
میرا سبھی کے ساتھ رویہ ہے ایک سا 
شاہد مجھے تمیز نہیں خیر و شر کے بیچ

*****************************
 شیخ ظہور الدین حاتم
بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ
آن کر پھر کے جلایا تو مجھے آن کے بیچ
ایک دن ہاتھ لگایا تھا ترے دامن کو
اب تلک سر ہے خجالت سے گریبان کے بیچ
تو نے دیکھا نہ کبھی پیار کی نظروں سے مجھے
جی نکل جائے گا میرا اسی ارمان کے بیچ
آج عاشق کے تئیں کیوں نہ کہے تو در در
واسطہ یہ ہے کہ موتی ہے ترے کان کے بیچ
ہوئی زباں لال ترے ہاتھ سے کھا کے بیڑا
کیا فسوں پڑھ کے کھلایا تھا مجھے پان کے بیچ
کچھ تو مجنوں کو حلاوت ہے وہاں دیوانو
چھوڑ شہروں کو جو پھرتا ہے بیابان کے بیچ
دیکھ حاتم کو بھلا تو نے برا کیوں مانا
کیا خلل اس نے کیا آ کے تری شان کے بیچ

**************************
ضیا جالندھری
خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ
اپنے آپ میں سب سچے ہیں مسجد و دیر کے بیچ
لاگ ہو یا کہ لگن ہو دونوں ایک دیے کی لویں
ایک ہی روشنی لہراتی ہے پیار اور بیر کے بیچ
دل میں دھوپ کھلے تو اندھیرے چھٹ جاتے ہیں آپ
اب ہم فرق روا نہیں رکھتے یار اور غیر کے بیچ
سوچ سمجھ سب سچ ہے لیکن دل کی بات ہے اور
دور تھی یوں تو آنکھ بھنور کی پہنچا تیر کے بیچ
جاتے ہو پہ قدم اٹھنے سے پہلے دھیان رہے
عمر کا فاصلہ ہو سکتا ہے پیر اور پیر کے بیچ
دیکھتی آنکھ ضیا حیراں ہے دیکھ کے دہر کے رنگ
پل کی پل میں بدل جاتے ہیں منظر سیر کے بیچ
*****************************
آشا پربھات
دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ
میری جبین شوق ترے سنگ در کے بیچ
کچھ لذت گناہ بھی ہے کچھ خدا کا خوف
انسان جی رہا ہے اسی خیر و شر کے بیچ
یہ خواہش وصال ہے یا ہجر کا سلوک
چٹکی سی لی ہے درد نے آ کر جگر کے بیچ
بچھڑے تو یہ ملال کی سوغات بھی ملی
تاکید تھی خیال نہ آئے سفر کے بیچ
خوشبو کی طرح لفظ تھے معنی بہ قید رنگ
یہ مرحلے بھی آئے ہیں عرض ہنر کے بیچ
دلہن بنی تھی آشاؔ وہ شب یاد ہے مجھے
گم تھے مرے حواس ہجوم نظر کے بیچ
*************************
آلوک مشرا
پھر تری یادوں کی پھنکاروں کے بیچ
نیم جاں ہے رات یلغاروں کے بیچ
اونگھتا رہتا ہے اکثر ماہتاب
رات بھر ہم چند بے داروں کے بیچ
گونجتی رہتی ہے مجھ میں دم بہ دم
چیخ جو ابھری نہ کہساروں کے بیچ
دیکھتا آخر میں اس کو کس طرح
روشنی کی تیز بوچھاروں کے بیچ
کھو ہی جاتا ہوں ترے قصے میں میں
بارہا گمنام کرداروں کے بیچ
ایک ادنی سا دیا ہے آفتاب
میرے من کے گہرے اندھیاروں کے بیچ
قید سے اپنی نکلتے کیوں نہیں
زخم کب بھرتے ہیں دیواروں کے بیچ
سانحے چھپنے لگے ہیں آنکھوں میں
نبض تھم جائے نہ اخباروں کے بیچ
تھا مہاوٹ اور پھر جڑواں بہاؤ
بہہ گیا میں گنگنے دھاروں کے بیچ
************************
احسن احمد اشک
انگ انگ جھلک اٹھتا ہے انگوں کے درپن کے بیچ
مان سروور امڈے امڈے ہیں بھرپور بدن کے بیچ
چاند انگڑائی پر انگڑائی لیتے ہیں جوبن کے بیچ
مدھم مدھم دیپ جلے ہیں سوئے سوئے نین کے بیچ
مکھڑے کے کئی روپ دودھیا چاندنی بھور سنہری دھوپ
رات کی کلیاں چٹکی چٹکی سی بالوں کے بن کے بیچ
متھرا کے پیڑوں سے کولہے چکنے چکنے سے گورے
روپ نرت کے جاگے جاگے چھتیوں کی تھرکن کے بیچ
جیسے ہیروں کا مینارہ چمکے گھور اندھیرے میں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں چولی اور دامن کے بیچ
من میں بسا کر مورت اک ان دیکھی کامنی رادھا کی 
احمد ہم تو کھو گئے برندابن کی کنج گلین کے بیچ
***********************
احمد فراز
پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
باغبانوں کو عجب رنج سے تکتے ہیں گلاب
گل فروش آج بہت جمع ہیں گلزار کے بیچ
قاتل اس شہر کا جب بانٹ رہا تھا منصب
ایک درویش بھی دیکھا اسی دربار کے بیچ
کج اداؤں کی عنایت ہے کہ ہم سے عشاق
کبھی دیوار کے پیچھے کبھی دیوار کے بیچ
تم ہو نا خوش تو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فراز
لوگ رہتے ہیں اسی شہر دل آزار کے بییچ

***********************
اسحاق اطہر صدیقی
آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ
منقسم ہوں کتنی دیواروں کے بیچ
سانس بھی لیتے نہیں کیا راستے
کیا ہوا بھی چپ ہے دیواروں کے بیچ
ایک بھی پہچان میں آتی نہیں
صورتیں کتنی ہیں بازاروں کے بیچ
دیکھنا ہے کس کو ہوتی ہے شکست
آئنہ ہے ایک تلواروں کے بیچ
کیسی دھرتی ہے کہ پھٹتی بھی نہیں
رقص مجبوری ہے مختاروں کے بیچ
اپنا اپنا کاسہ غم لائے ہیں
ہے نمائش سی عزاداروں کے بیچ
ہے انہی سے رونق بزم حیات
پھول کھلتے ہیں جو انگاروں کے بیچ
کیا شعاع مہر آتی ہے کبھی
آسماں بر دوش دیواروں کے بیچ
ہم بھی اطہر میر صاحب کے طفیل
شعر کہتے ہیں طرح داروں کے بیچ

**************************
 اعجاز گل
کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ
بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ
کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ
ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ
یہ میں ہوں تو ہے ہیولی ہے ہر مسافر کا
جو مٹ رہا ہے تھکن سے ادھر غبار کے بیچ
کوئی لکیر سی پانی کی جھلملاتی ہے
کبھی کبھی مرے متروک آبشار کے بیچ
میں عمر کو تو مجھے عمر کھینچتی ہے الٹ
تضاد سمت کا ہے اسپ اور سوار کے بیچ

 **************************
انور مسعود
کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ
رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ
میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ
اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ
سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا
اب ملاقات اس سے ہوگی کون سے ہفتے کے بیچ
میں نےانور اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ
 **************************
عدیم ہاشمی
اُس نے دِل پھینکا خریداروں کے بیچ
پھر کوئی مَحشر تھا بازاروں کے بیچ
تُو نے دیکھی ہے پرستِش حُسن کی
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بیچ
سر ہی ٹکرا کے گُزر جاتے ہو کیوں
گھر بھی کُچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بیچ
تُو کہاں اس ریگزارِ دہر میں
پھُول تو کِھلتے ہیں گُلزاروں کے بیچ
یہ سماں تُو نے بِتایا تھا کہاں
آ پلٹ جائیں اُنہی غاروں کے بیچ
کوئی سِکّہ بِیچ میں گِرتا نہیں
چاند وہ کشکول ہے تاروں کے بیچ
وہ کبُوتر گُنبدوں پر یاد ہیں
وہ پتنگ اُن دونوں میناروں کے بیچ
فاختائیں بھی ابابیلیں بھی ہیں
کُچھ نہیں موجُود مِنقاروں کے بیچ
رات بھر آتی ہے آہوں کی صدا
کِس کو چُنوایا ہے دیواروں کے بیچ
یوں اُسے دیکھا غنیموں میں عدیم
جیسے کوئی پھول تلواروں کے بیچ

**************************
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ
ﻗﺘﻞ ﭼﮭﭙﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻨﮓ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻣﻘﺘﻞ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻮﺷﺎﮎ ﮐﮯ ﭼﮭﻦ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﺳﺮ ﺳﻼﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺳﺮﺧﯿﺎﮞ ﺍﻣﻦ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﯿﮟ
ﺣﺮﻑ ﺑﺎﺭﻭﺩ ﺍﮔﻠﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﮐﺎﺵ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﮩﻠﺖ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ
ﺷﻌﻠﮯ ﺍﮔﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﮈﮬﻠﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﻧﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺳﺮ ﮐﺸﯿﺪﮦ ﻣﺮﺍ ﺳﺎﯾﺎ ﺻﻒ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺭﺯﻕ، ﻣﻠﺒﻮﺱ ، ﻣﮑﺎﮞ، ﺳﺎﻧﺲ، ﻣﺮﺽ، ﻗﺮﺽ، ﺩﻭﺍ
ﻣﻨﻘﺴﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺍﻧﮩﯽ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻣﺮﮮ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺤﺴﻦ
ﺁﺝ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﻏﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ

**************************
سعود عثمانی
اور اب دماغ نشانی نہ دل حوالہ مرا
بدلتے وقت نے ماضی ہی مار ڈالا مرا
نبھا سکا نہ تعلق تو معذرت کیسی
پڑا تھا پہلی دفعہ زندگی سے پالا مرا
میں روز اس میں نئی دھوپ بھر کے پیتا ہوں
پگھلتا جاتا ہے یہ برف کا پیالہ مرا
دراز ہوگئی جب شب ہزار راتوں تک
کسی نے کھینچ کے مغرب سے دن نکالا مرا
مئے کہن ہے مگر تازگی تو چکھ اس کی
نیا نکور ہے لہجہ ہزار سالہ مرا
میں روز رات کو دل میں قیام کرتا ہوں
شبِ سیاہ میں کھلتا ہے دشت ِ لالہ مرا
 
**************************
سعود عثمانی
مہ ِ تمام ذرا دیکھ تو اجالا مرا
کسی کی دین ہے یہ ہفت رنگ ہالہ مرا
میں طفل تھا سو مجھے بار تھی محبت بھی
کسی نے پھر بڑے جتنوں سے عشق پالا مرا
خدا کو مان ! میں خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں
ترے وصال سے ہوتا ہے کب ازالہ مرا
ہر اک کے واسطے ہوتا تو ہے کوئی نہ کوئی
کہیں تو ہوگا کوئی شخص لامحالہ مرا
میں خود نہیں ہوں یقیناً تو اور کون ہے وہ
سعود ہے تو کوئی پیار کرنے والا مرا

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo