Saal-e-Nou Aik Istea'ara Hai



سالِ نو ایک استعارہ ہے
وقت ہر ایک سا ہمارا ہے

سال ہوتے ہیں موسموں کی طرح
ہمیں سب موسموں نے مارا ہے

وقت نے صرف پلک ہے جھپکی
آنکھ میں ہو بہو نظارہ ہے

خامشی میں وہی تعفن اک
گفتگو میں وہی غبارا ہے

حال بگڑا ہے اور بھی اپنا
ہم نے جتنا اسے سنوارا ہے

اپنے سائے کے ساتھ چلتے رہے
اور سمجھتے رہے تمہارا ہے

ہر نیا سال، سال بھر ہم نے
بس تری آس میں گزارا ہے

جو محبت کرے وہی جانے
اس میں اک مستقل خسارہ ہے

زندگی ہم خرید بیٹھے تھے
قرض ہر سانس نے اتارا ہے

کیا مناوں میں سالِ نو ابرک
جب وہی سال پھر دوبارا ہے
اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo