Samny Uske Kabhi Uski Sataish Nahi Ki,Dil Ne Chaha Bhi Agar Honto Ne Jinbish Nahi Ki
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فراز
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
احمد فراز
*******************
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فراز
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
احمد فراز
*******************
وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیئے ،اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اولِ شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کہ ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے، آنکھ نے بارش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے، ہم نے بھی پرسش نہیں کی
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
عنبریں حسیب عنبر
Comments
Post a Comment