دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا
ترک مدافعت کا بہانا عجیب تھا
ترک مدافعت کا بہانا عجیب تھا
اک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر
ہم ہی عجیب تھے کہ زمانہ عجیب تھا
ہم ہی عجیب تھے کہ زمانہ عجیب تھا
زندہ بچا نہ قتل ہوا طائر امید
اس تیر نیم کش کا نشانہ عجیب تھا
اس تیر نیم کش کا نشانہ عجیب تھا
سنتے رہے اخیر تلک مہر و ماہ ونجم
اس خاکداں کا سارا فسانہ عجیب تھا
اس خاکداں کا سارا فسانہ عجیب تھا
جس راہ سے کبھی نہیں ممکن ترا گزر
تیرے طلب گروں کا ٹھکانہ عجیب تھا
تیرے طلب گروں کا ٹھکانہ عجیب تھا
اب کے تو یہ ہوا ہے کہ میرے بلانے سے
اس زود رنج شخص کا آنا عجیب تھا
اس زود رنج شخص کا آنا عجیب تھا
کھونا تو خیر تھا ہی کسی دن اسے مگر
ایسے ہوا مزاج کا پانا عجیب تھا۔
ایسے ہوا مزاج کا پانا عجیب تھا۔
سب داغ بارشوں کی ہوا میں بجھے رہے
بس دل کا ایک زخم پرانا عجیب تھا۔۔۔
بس دل کا ایک زخم پرانا عجیب تھا۔۔۔
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment