Wehshatein Barhti Gain Hijar Ke Aazaar Ke Saath



وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فراز
سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
احمد فراز

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai