Parveen Shakir K Muntakhab Asha'ar
24 / نومبر / 1952*
*مقبول ترین خاتون شاعرہ پروین شاکر کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار احبابِ ذوق کی خدمت*
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
*اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں*
*اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں*
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
*میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی*
*وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا*
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
*اس کے یوں ترکِ محبت کا سبب ہوگا کوئی*
*جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا*
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
*بس یہ ہوا کہ اس نے تکلّف سے بات کی*
*اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے*
*بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن*
*وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے*
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
*گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح*
*دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح*
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
*تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی*
*اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے*
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شبِ سفر کرتے رہے
*چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا*
*عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا*
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
*بابِ حیرت سے مجھے اذنِ سفر ہونے کو ہے*
*تہنیت اے دل کہ اب دیوار در ہونے کو ہے*
*ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا*
*کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا*
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
*میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں*
*شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی*
*پروین شاکر*
*مقبول ترین خاتون شاعرہ پروین شاکر کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار احبابِ ذوق کی خدمت*
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
*اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں*
*اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں*
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
*میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی*
*وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا*
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
*اس کے یوں ترکِ محبت کا سبب ہوگا کوئی*
*جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا*
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
*بس یہ ہوا کہ اس نے تکلّف سے بات کی*
*اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے*
*بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن*
*وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے*
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
*گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح*
*دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح*
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
*تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی*
*اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے*
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شبِ سفر کرتے رہے
*چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا*
*عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا*
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
*بابِ حیرت سے مجھے اذنِ سفر ہونے کو ہے*
*تہنیت اے دل کہ اب دیوار در ہونے کو ہے*
*ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا*
*کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا*
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
*میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں*
*شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی*
*پروین شاکر*
Comments
Post a Comment