احمد فراز
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیئے کیا یاد ایا
آج کیا جانیئے کیا یاد ایا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہدِ وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول
ایک ایک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سرِ منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بُھولے وہ سدا یاد آیا
پھر ترا عہدِ وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول
ایک ایک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سرِ منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بُھولے وہ سدا یاد آیا
No comments:
Post a Comment