Manzil Ke Iss Usool Ko Ruswa Nahi Kia Rasta Se Lotny Ka Irada Nahi Kia
منزل کے اس اصول کو رسوا نہیں کیا
رستہ سے لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
دل کو گداز بھی رکھا تو احتیاط سے
کر تو لیا یقین پر اتنا نہیں کیا
ہم کو بھی پھر امید کچھ ایسی نہیں رہی
اچھا ہوا جو تو نے بھی وعدہ نہیں کیا
فاقہ کشی میں یوں تو کئی رحم دل ملے
کاسہ ہی ہم نے اپنا کشادہ نہیں کیا
یہ بھی تو کم نہیں ہے کی ہم نے کوئی گناہ
اک بار ہو گیا تو دوبارہ نہیں کیا
صحرا نورد کا ہمیں راس آ گیا لقب
جب اس نے اپنے نام کو دریا نہیں کیا
بچوں معاف کرنا کی تم کھاؤ بیٹھ کر
میں نے تمہارے واسطے اتنا نہیں کیا
تو ہی بتا میں کیسے کروں مطمئن تجھے
ایسا نہیں کیا کبھی ویسا نہیں کیا
نایابؔ تیرے سر کی قسم اس جہان نے
کرنے کو ہم سے جو بھی کہا تھا نہیں کیا
نتن نایابؔ
Comments
Post a Comment