Hijar Wisal Ki Sarhad Pe Zindagi Guzri Humare Pehlo Se Ho Kar Har Ik Khushi Guzri
ہجر وصال کی سرحد پہ زندگی گزری
ہمارے پہلو سے ہو کر ہر اک خوشی گزری
ہمارے غم ہیں امیدوں کی سر پرستی میں
سیاہ رات بھی خود بن کے روشنی گزری
یونہی نہ کوس محبت کو تو خفا مت ہو
ملے یہ ہم سوں کو، ایسی نہیں گئی گزری
غلط ہیں کہتے، نہیں وقت لوٹ کر آتا
جو تیرے ساتھ گزاری، گھڑی گھڑی گزری
اب اور کیسے ہو طوفان کی بیاں شدت
کہ عمر گزری، نہ اس آنکھ سے نمی گزری
بس ایک گل تھا جو مطلوب وہ نہیں پایا
وگرنہ آنکھ سے یارو کلی کلی گزری
تلاش میں ہوں کہ نسخہ ہمارے ہاتھ لگے
ہمارے بعد بھلا کیسے آپ کی گزری
تو لکھنے والوں کا خود حال سوچ لے ابرک
جو پڑھنے والوں پہ ہے اس قدر کڑی گزری
اتباف ابرک
Comments
Post a Comment