آج اس وقت کو کچھ دیر ٹھہر جانے دو
ان سلسلوں کو نسبتوں میں بدل جانے دو
گزرتے لمہوں کی خاموش آہٹوں کو اک بار
سمیٹ لو انہیں دھڑکنوں میں اتر جانے دو
سرمئ شام اپنی ہی شفق میں ڈوب جاۓگی
لبوں سے چوم لو اسے آج غزل بن جانے دو
افق سے ٹوٹ کچھ ستارے جو زمیں بوس ہوۓ
چراغ شب وصال ہیں انہیں جل جانے دو
لپٹی ہواؤں کی لرزتی مدہم سرگوشی می
کچھ اپنی سنو کچھ ہم کو بھی کیہ جانے دو
تہمینا
ان سلسلوں کو نسبتوں میں بدل جانے دو
گزرتے لمہوں کی خاموش آہٹوں کو اک بار
سمیٹ لو انہیں دھڑکنوں میں اتر جانے دو
سرمئ شام اپنی ہی شفق میں ڈوب جاۓگی
لبوں سے چوم لو اسے آج غزل بن جانے دو
افق سے ٹوٹ کچھ ستارے جو زمیں بوس ہوۓ
چراغ شب وصال ہیں انہیں جل جانے دو
لپٹی ہواؤں کی لرزتی مدہم سرگوشی می
کچھ اپنی سنو کچھ ہم کو بھی کیہ جانے دو
تہمینا
No comments:
Post a Comment