Bhar Ke Laya Tha Jo Daman Mein Sitare Sahib Le Gaya Loot Ke Sab Khuwaab Humare Sahib



بھر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب
لے گیا لوٹ کے سب خواب ہمارے صاحب

آپ آسودہ ہیں اس حلقـہ ء یاراں میں تو پھر
یاد آئیں گے کہاں درد کے مارے صاحب

ہجر میں سانس بھی رک رک کے چلا کرتی ھے
مجھ کو دے جائیں نا کچھ سانس اُدھا رے صاحب

کچھ خطاؤں کی سزا عشق کی صورت پائی
ہم نے دنیا میں ہی کچھ قرض اتا رے صاحب

ہم جو نکلے کبھی بازار میں کاسہ لے کر
بھیک میں بھی تو ملے درد کے دھا رے صاحب

اب بھی جلتے ہیں تری یاد میں اشکوں کے چــراغ
شب کو معلوم ہیں سب زخم ہما رے صاحب

میرا رشتوں کی تجارت پہ تو ایماں ہی نہ تھا
بک گۓ خاک کی قیمت یہ ستارے صاحب

یاد کے دشت میں ہم پھرتے ہیں یوں آبلہ پا
آ کے دیکھو تو کبھی پاؤں ہمـارے صاحب

بارہا اسکو بچھڑتے ھوئے کہنا چاہا
روٹھ کر بھی نہیں ہوتے ہیں گزار ے صاحب

لا کے قدموں میں سبھی چاند ستارے رکھ دیں
لوٹ کر آنا کبھی شہر ہما رے صاحب

آنکھ سے دل کی زباں صاف سنائ دیتی
تم ہی سمجھے نـہ محبت کے اشارے صاحب

شاعرہ فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo