Woh Dheemi Dheemi Aanch Jo Seenay Mein Na-Jane Kab Se Jal Rahi Thi Ab Aag Ban Chuki Hai
جو سینے میں نجانے کب سے جل رہی تھی
اب آگ بن چکی ہے
بےچینی
بےچارگی
دکھ، ملال
گزرتا ھوا اک اک لمحہ صدیوں پر محیط
گویا یہ انتظار لاحاصل انتظار
چشمیں ویراں سے بہتی قطرہ قطرہ تیری یاد
یہ ہونٹوں پر لرزتی دعائیں
یہ ٹوٹے حوصلے
یہ وحشت زدہ تنہائی
ترستی سماعتیں
کوئی تو خوش گمانی بھیجھو جو روح کو سرشار کر دے
میرے تمام عمر کے ہجر کو وصال کر دے
Comments
Post a Comment