Shukar Kia Hai In Paidon Ne Sabar Ki Aadat Dali Hai Iss Manzar Se Dekho Barish Hone Wali Hai
شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے
اس منظر سے دیکھو بارش ہونے والی ہے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرا خالی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
اپنی مرضی سے سب چیزیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں
بے ترتیبی نے اس گھر میں اتنی جگہ بنا لی ہے
دیر سے قفل پڑا دروازہ اک دیوار ہی لگتا تھا
اس پر ایک کھلے دروازے کی تصویر لگا لی ہے
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑ جاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنا لی ہے
اوپر سب کچھ جل جائے گا کون مدد کو آئے گا
جس منزل پر آگ لگی ہے سب سے نیچے والی ہے
اک کمرا سایوں سے بھرا ہے اک کمرا آوازوں سے
آنگن میں کچھ خواب پڑے ہیں ویسے یہ گھر خالی ہے
پیروں کو تو دشت بھی کم ہے سر کو دشت نوردی بھی
عادلؔ ہم سے چادر جتنی پھیل سکی پھیلا لی ہے
Comments
Post a Comment