ہم کہ راہوں کی دھول نکلیں گے
منزلوں پر فضول نکلیں گے
منزلوں پر فضول نکلیں گے
دنیا داری اصول دنیا کا
یعنی ہم بے اصول نکلیں گے
یعنی ہم بے اصول نکلیں گے
یونہی کیجے نہ شول سے شکوہ
چبھ رہے ہیں جو پھول نکلیں گے
کیا تماشا ہے ، سب تماشائی
ہنستے آئے ، ملول نکلیں گے
ہے کہانی کا اختتام کہ ہم
حسنِ جاناں کی بھول نکلیں گے
ان کو ہے وہم پل صراط بھی وہ
باتوں باتوں میں جھول نکلیں گے
جیسے کر لیجئے حساب مرا
وہی حاصل وصول نکلیں گے
جسم، جاں، دل ہیں چیز کیا ابرک
روح تک وہ حلول نکلیں گے
اتباف ابرک
چبھ رہے ہیں جو پھول نکلیں گے
کیا تماشا ہے ، سب تماشائی
ہنستے آئے ، ملول نکلیں گے
ہے کہانی کا اختتام کہ ہم
حسنِ جاناں کی بھول نکلیں گے
ان کو ہے وہم پل صراط بھی وہ
باتوں باتوں میں جھول نکلیں گے
جیسے کر لیجئے حساب مرا
وہی حاصل وصول نکلیں گے
جسم، جاں، دل ہیں چیز کیا ابرک
روح تک وہ حلول نکلیں گے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment