Barson Ke Baad Dekha , Ik Shakhas Dilruba Sa Ab Zehn Me Nahi Hai Par Nam Tha Bhala Sa



برسوں کے بعد ديکھا ، اِک شخص دِلربا سا
اب ذھن ميں نہيں ھے ، پر نام تھا بھلا سا
ابرو کِچھے کِچھے سے ، آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رُکی رُکی سی ، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو ، آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں ، جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اس کے ، يادوں ميں ياد اُس کی
نيندوں ميں گھل گيا ھو ، جيسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے ، کتنے ھی زندگي ميں
وہ ھر طرح سے ليکن ، اوروں سے تھا جُدا سا
اگلی محبتوں نے ، وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے ، دل تھا ڈرا ڈرا سا
ھم دشت تھے کہ دريا ، ھم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زُعم ھم کو ، جب وہ نہيں تھا پياسا
اب سچ کہيں تو يارو ، ھم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت ، اِک واقعہ ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن ، لگتا تھا آشنا سا
ھم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقاٌ
اپنا بھی حال ھے اب ، لوگو فراز کا سا
احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo