Main Iss Haqeeqat Se Be-Khabar Tha Mujhe Muhabbat Ka Canser Tha
میں اس حقیقت سے بے خبر تھا
مجھے محبت کا کینسر تھا
مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
پانی میں ریت، ریت میں پانی تمام شد
اک مختصر طویل کہانی تمام شد
بسترِ مرگ پہ تھی اک دنیا
اور تم مرگئے ، کمال کیا
خواب میں ہاتھ تھامنے والے
دیکھ بستر سے گِر پڑا ہوں میں
وہ آملے مرا کردار ختم ہونے تک
یہ اتفاق کہانی میں ڈال دے مولا
فارغ نہ جانیے مجھے مصروف جنگ ہوں
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایہ مِلے
میرے مِٹنے کا تماشہ دیکھنے کی چیز تھی
آج کل میرے تصرف میں نہیں ہے لیکن
زند گی شہر میں ہو گی کہیں دو چار کے پاس
سستانے کو بیٹھا ہُوں، ستانے نہیں آیا
اے پنچھیو، میں تم کو اُڑانے نہیں آیا
اِس دستِ دُعاگو میں کُلہاڑی نہیں دیکھو
بیٹھے رہو، میں پیڑ گرانے نہیں آیا
آفات کے بارے میں، نہ یُوں شور مچاؤ
میں پُوچھنے آیا ہوں بتانے نہیں آیا
کچھ دیر کو بس کھیلنے آیا ہُوں، اکیلے
میں کھیت کو میدان بنانے نہیں آیا
وہ کون مُسافر ہے جو دعویٰ کرے عاصم
آیا ہُوں، مگر لوٹ کے جانے نہیں آیا
جسم پر طوق نہ زنجیر کی گنجائش ہے
ہاں مگر سینے میں اک تیر کی گنجائش ہے
دیکھتے ہی تجھے چپ ہو گئی ساری محفل
اب بھی ظالم کسی تقریر کی گنجائش ہے؟
یوں اکیلا مجھے سب چھوڑ گئے ہیں گویا
دشت میں ایک ہی رہ گیر کی گنجائش ہے
کہاں تک ایک ہی تمثیل دیکھوں
بس اب پردہ گرا دو تھک گیا ہوں
مقصد ہے اگر تیرا آرائشِ تنہائی
آئینہ مقابل کر اے خواہشِ تنہائی
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
لیاقت علی عاصم
Comments
Post a Comment