Gaye Mousam Mein Jo Khiltey Thay Gulabon Ki Tarah Dil Pe Utrengy Wahi Khuwaab Azabon Ki Tarah
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ آتریں گے وہی خواب عزابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے میرے خیمے میرے خوابوں کی طرح
سماعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولین لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تیری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے تیرے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب میری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو میرےکھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
Comments
Post a Comment