Ae Ishq Humain Barbad Na Kar Ae Ishq Na Chaid Aa Aa Ke Humain
اختر شیرانی کی سپر کلاس غزل اس کے بھی سب مصرے نہیں گائے گئے
*********
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی
آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
بیدرد! ذرا انصاف تو کر
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب
مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق خدارا دیکھ کہیں
وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو
وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
ناموس کا اس کے پاس رہے
وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
اے عشق ! خدارا رحم و کرم
معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر شیرانی
Comments
Post a Comment