Dil Ka Darbar Dunya Mein Lagaoun Kaise Uske Dil Se Kudorat Mitaoun Kaise


 

دل کا دربار دنیا میں لگاؤں کیسے
اُس کے دل سے کدورت مٹاؤں کیسے
خدا نے تو ایک ہی بار بنایا مجھ کو
اب میں خود کو بار بار بناؤں کیسے
 اُس نے تذلیل کی ہر بار عقیدتوں کی
اپنا مدعا کسی اور کو سناؤں کیسے
۔
وہ کرے گا کلام مگر ہم نہ کریں گے
وہ کرے گا سلام مگر ہم نہ کریں گے
دے دیا ہمیں خدا نے صبر کا اب تحفہ
رو رو کے کہرام اب ہم نہ کریں گے
تِرے در پہ آ کر جّھڑکیں سنوں تِری
اپنی عزت کو نیلام اب ہم نہ کریں گے
وہ سر کو جُھکانا وہ با ادب کھڑا ہونا
خود کو تمہارا غلام اب ہم نہ کریں گے
جب جو چاہے استعمال کر کے پھینک دے
خود کو اتنا عام اب ہم نہ کریں گے
۔
ہم بھی اب اُن سے خفا ہو گئے ہیں
جن کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے
۔
میرا غم اگرچہ ہلکا تھا
پھر بھی آنسو چھلکا تھا
۔
وہ ایک کچا سوتی دھاگہ تھا
میں جس کے پیچھے بھاگا تھا
۔
جب اُس نے مجھ کو جھڑکا تھا
میرا  دل  بخدا  بہت  پھڑکا  تھا
۔
زندہ تھا تو کوئی قدر و قیمت نہ تھی میری
مگر  مر  کو  پھولوں کا  حق دار ہو گیا میں
میں رکھتا تھا جسے دل و جان سے عزیز
نہ جانے کیوں اُس سے بے زار ہو گیا میں
اچھا بھلا چل رہا تھا میں پلِ صراط پر
ذرا سا پِھسلا اور فی النار ہو گیا میں
یہ کیا کیا میں نے یہ کیا ہوا میرے ساتھ
جب بھی میں نے سوچا اشکبار ہو گیا میں
دل توڑا ہے کسی نے کچھ اس طرح سے
خدا نے مجھ کو جوڑا دیندار ہو گیا میں
کتنی بار جا کر تذلیل اپنی خود کروائی
خود اپنی نظروں میں شرمسار ہو گیا میں
کوئی نہ رہا جو مجھے سنتا اور کچھ کہتا
اب تو خود ہی اپنا غمگسار ہو گیا میں
کل جمعہ کے بعد اس کو ذرا نہ یاد کیا
خود اپنی ہی نظروں میں گناہ گار ہو گیا میں
میرا تمہارے ساتھ کوئی واسطہ نہیں بنتا
سن کے لفظ ان کے سوگوار ہو گیا میں
بسترِ مرگ پہ پہنچا تو مجھ کو یاد آیا
اچھا بھلا تھا میں مگر بیکار ہو گیا میں
منصف کو ایک دن شکایت اس نے کر دی
خود موت کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا میں
۔
اُس نے کہا تھا جو کرنی ہو بات کر لینا
جو  ملنا ہو تو یہیں پر ملاقات کر لینا
مگر مُکر گیا وہ اپنی ہی باتوں سے آج
تنگ پڑ گیا وہ میری مُلاقاتوں سے آج
اس نے میری طرف دیکھنا گوارا نہ کیا
چلتے بنو مجھے آنکھوں سے اشارہ کیا
۔
بغیر  وضو کے کبھی آسمان کو نہیں دیکھا
آج  تک میں نے کسی انجان کو نہیں دیکھا
۔
کوئی  نہ  تھا  میرا  اُن  کے  سوا بخدا
مگر  قبول  کی  ہے  اُن  کی  رضا بخدا
خوش  دکھائی  دینا  مجبوری  ہے  اب
ورنہ  اب  ہر   روز  ہے  یومِ  عزا  بخدا
ہر  بیماری  کی  رکھی  ہے  خدا نے دوا
مگر اس روگ کی نہیں کوئی شِفا بخدا
اُن  کی  انا  تھی  یا جو کچھ بھی تھا
ہم  نے  سمجھا  نہیں  کبھی  دغا بخدا
میں  جب  بھی اُن کے در پر حاضر ہوا
میرا  سر  اُن  کے  آگے  رہا  جھکا بخدا
بہت  کہا  کہ  کچھ  ہمارا  بھی سوچو
ہوا   آگاہ   کئے   بغیر   ہی  جُدا  بخدا
بھول  گیا  زندگی  میں  جو  بھی  ہوا
مگر  نہ  بُھولا  جو اُنہوں نے کہا بخدا
آخری  بار  اٹھارہ  کو وہ مُسکرائے تھے
تب  سے  اب تک نہ لی کوئی غذا بخدا
اگر  آپ  سے  عقیدتیں جرم ہے تو پھر
پلیز  بخش  دیں  ہماری  ہر  خطا بخدا
اُن  کی  یاد  میں  ہم  نے  اتنا گریہ کیا
ہماری نمازیں بھی ہوئی ہیں قضا بخدا
جو دو چار دن ہنسی خوشی سے گزرے
اُنہیں  سمجھا  ہے  خدا  کی عطا بخدا
اُن کے جانے سے پرندے شجر بھی چُپ
بڑی  سوگوار  ہو  گئی  ہے  فِضا  بخدا
ہم  نے  خود  کو  اِک  دن  مار  ہی  دیا
اُن  کا  سلوک  ہمیں نہیں تھا روا بخدا
ہم  پہ حق  تھا جو اُن کا وہ معلوم تھا
جان  دے  کر  ہم  نے  کیا  وہ ادا بخدا
ہماری  عقیدتوں  نے  ہمیں کافر بنا دیا
نہ دفنا اب مُجھے جلا میری چِتا بخدا
ہمارے  لفظ اُن کی دسترس میں کہاں
ہم  سے  تو  اچھا  ہے  وقار  ذکاء بخدا
کُل کائنات ہم نے اُن کو تحفے میں دی
میری  ہاتھ  میں واپس دی تھما بخدا
کاش  وہ  پڑھتے ہمیں  اور کہتے ہمیں
مت  کرو  یوں  آپ  خود کو تباہ بخدا
میں  بچوں جیسا اُن کے پیچھے بھاگا
وہ  کٹ  گئے  پتنگوں  کی طرح  بخدا
پہنچتا تھا میں دوڑ کر اک سانس میں
جب بھی دیتے تھے مُجھ کو ندا بخدا
بس ایک ہی بھیک مانگتا ہوں میں روز
مُجھے  نہ  کرنا کبھی کہیں رُسوا بخدا
اُن  کے  در  سے لوٹا ہوں پھر سے خالی
مگر  دیتا  ہوں  اُن  کو  بہت دعا بخدا
پھول  کھلتے  رہیں اُن کی زندگی میں
وہ  خوش  رہیں  ہمیشہ وہ سدا بخدا
میں سب میں نہیں اِک الگ وجود تھا
میں نے کھودا خود اپنے لئے گڑھا بخدا
بار  بار  اُن  کی  چوکھٹ  سے مایوس
اب نہ جائے گا تِرے در پہ یہ گدا بخدا
۔
یا الہیٰ اب صبر دے
میری نیکیوں کا اجر دے
میری زندگی پر رہے سایہ
مجھ کو ایسا شجر دے
۔
اُن  کو  ایک  دن  اپنا  جھڑکنا  یاد آئے گا
وہ   میرا  رو   رو  کر   بلکنا  یاد  آئے  گا
یاد آئے گا بات  کرتے  ہوئے  میرا جھجکنا
میرا روتے ہوئے در سے کھسکنا یاد آئے گا
۔
وہ  اِک  درد  جو دل کے  پاس ہے
مجھے  ہر  طرح  سے وہ راس ہے
میں  کسی  سے  شکوہ کیا کروں
مجھے  اُن  کی  عزت کا پاس ہے
جسم  گرا  نہیں  جسم مرا  نہیں
سات  روز  سے  فرض  شناس ہے
میرے لفظ جنازے کی دعا جیسے
کچھ  اور  نہ  اب میرے پاس ہے
۔
یہ  رات  بھی  کیا  رات  تھی  نہ  سو سکے نہ رو سکے
وہ شخص بھی کیا شخص تھا نہ پا سکے نہ کھو سکے
۔
مرنے کا بہت شوق تھا مگر اب بالکل نہیں ہے
وہ شخص ہمارا ذوق تھا مگر اب بالکل نہیں ہے
۔
سر کے بل، حد ادب، میں اور میری عقیدتیں
وہ گلہ کر رہے تھے کہ احساس نہیں مجھے
۔
ضرور  آتے  ہم  تجھے  اپنا  قصہ سنانے
مگر  اب  اپنی  تحقیر  سے  ڈر  لگتا ہے
تری  چوکھٹ  تک  جانے  کا  قصد کرتے
مگر  آتے  جاتے راہگیر  سے  ڈر  لگتا ہے
لکھ  رہے  ہیں  پتہ  نہیں   کیا  سے کیا
پڑھ  کر  اپنی  تحریر  سے  ڈر  لگتا  ہے
انصاف مانگنے  کے  لئے ضرور  آتے  مگر
تِری  انصاف  کی  زنجیر سے ڈر لگتا ہے
خدا  کے بجائے  تِرا  نام  نہ  لے  بیٹھیں
اب  نماز  کی ہر  تکبیر  سے  ڈر  لگتا ہے
کہیں  رُسوا  ہو   کر  نا   مرنا  پڑ  جائے
اپنی  سُلگتی ہوئی تقدیر سے ڈر لگتا ہے
خواب  دیکھے  ہم  نے اُن کی شفقت کے
اب   اِن   کی   تعبیر   سے   ڈر  لگتا  ہے
مجھے معلوم ہے وہ میرا نام پکاریں گے
وہ جو کر رہے ہیں تاخیر سے ڈر لگتا ہے
وہ  چپ ہیں اور اُن  کا  سایہ تک نہیں
مجھے اُن کی اِس تدبیر سے ڈر لگتا ہے
جا کر  اُن سے سرد چادر کا تقاضا  کرتا
وہ  کر  دیں  نہ  تشہیر  سے ڈر لگتا ہے
وہ   تو   جو  چاہیں  وہی  ہو  جاتا  ہے

اُن  کی   اِس  تسخیر  سے  ڈر  لگتا  ہے

۔
کچھ نہ مانگا  تھا میں نے ایسا
سزا جِس کی ہو سِسک کے مرنا


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo