Charagar Bhi Kia Karta Zakham Thay Muhabbat Ke Jan Le Ke Jate Hein Aarzay Muhabbat Ke
چارہ گَر بھی کَیا کَرتا زَخم تھے محَبَّت کے
جان لے کے جاتے ہیں عارضے محَبَّت کے
آہ و زاری گِریہ تَو عرش تک پہنچتے ہیں
کوہ بَحر صحرا کَیا سامنے محَبَّت کے
چل پَڑے اَگَر اِک بار واپسی کی مَت سوچو
لَوٹ کَر نہیں آتے راستے محَبَّت کے
موسمِ بہار اُن کے ساتھ ساتھ چَلتا ہے
گُل کِھلاتے جاتے ہیں قافلے محَبَّت کے
اِقتِدار کے بُھوکو مَت ہَوا دو نَفرَت کو
خاک میں مِلا دیں گے زَلزَلے محَبَّت کے
ایک شَخص تَنہا بھی موڑ دے رُخِ دَریا
مُعجزے دِکھاتے ہیں حوصلے محَبَّت کے
سازؔ تُم بہاروں میں کیوں اُداس بیٹھے ہو
کَیا ہُوۓ تُمہارے وہ وَلوَلے محَبَّت کے!
سازؔ دہلوی
Comments
Post a Comment