Main Ne Dekha Tha Un Dinon Mein Usay Jab Woh Khiltay Gulaab Jaisa Tha
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
اس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اس کا لہجہ ........ شراب جیسا تھا
اس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اس کا رخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا ........... تھا
بولتا تھازبان خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اس کی
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب ......... تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اسی کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات .... کرتا تھا
رنگ پڑھتے تھے آنچلوں میں اسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشت ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر ان دنوں وہ کیسا ہے ؟
"میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے "
( محسن نقوی )
Comments
Post a Comment