Ye Saal Bhi Udaas Raha Rooth Kar Gaya
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تُجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
عُمرِ رَواں خِزاں کی ہَوا سے بھی تیز تھی
ہر لمحہ برگِ زرد کی صورت بکھر گیا
کب سے گِھرا ہُوا ہُوں بگولوں کے درمیاں
صحرا بھی میرے گھر کے در و بام پر گیا
دل میں چٹختے چٹختے وہموں کے بوجھ سے
وہ خوف تھا کہ رات مَیں سوتے میں ڈر گیا
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
ہم عکسِ خونِ دل ہی لُٹاتے پھرے مگر
وہ شخص آنسوؤں کی دھنک میں نکھر گیا
محسن یہ رنگ رُوپ یہ رونق بجا مگر
میں زندہ کیا رہوں کہ مِرا جی تو بھر گیا
محسن نقوی
Comments
Post a Comment