Kitab e Ishq Ke Ulty Warq Awal Se Aakhir Tak
کتاب عشق کے اُلٹے ورق اول سے آخر تک
مگر سمجھے نہ ہم اس کا سبق اول سے آخر تک
بری ہے ابتدا بھی انتہا بھی تیری الفت کی
کہ اس میں ہیں غم و رنج و قلق اول سے آخر تک
کبھی عرش اعلیٰ پر کبھی ہے تخت الژیٰ میں ہے
کھلے ہیں شیخ پر چودہ طبق اول سے آخر تک
مے انگور تحفے میں تجھے دیتا ہوں اے زاہد
رہے گا تیز یکساں یہ عرق اول سے آخر تک
ہزاروں دوست دشمن بزم میں اس کی رہے لیکن
رہا اک شکل پر نظم و نسق اول سے آخر تک
ازل سے تا ابد پائی نہ راحت اس جراحت نے
رہا ہم بسملوں کا سینہ شق اول سے آخر تک
بہار عارض گلگلوں سے تیرے اس کو کیا نسبت
نہیں اک رنگ پر رہتی شفق اول سے آخر تک
بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک
لکھوں اُس کو جواب اے داغؔ کیا میں سخت حیران ہوں
لکھے ہیں خط میں مضمون ادق اول سے آخر تک
داغؔ دہلویؒ
Comments
Post a Comment