Main Tere Sang Abhi Aur Chal Nahi Sakta
میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہیں سکتا
لکھا گیا جو مقدر میں ٹل نہیں سکتا
ہر اک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہںے
چنا جو راستہ، رستہ بدل نہیں سکتا
میں بھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہںوں
ملیں جو بھیک میں ٹکڑوں پہ پل نہیں سکتا
قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لوں گا
کہ راز دوست کا اپنے اگل نہیں سکتا
بھلے ہںو جسم پہ پوشاک خستہ حال مگر
لباس تن پہ محبت گل نہیں سکتا
زمیں پہ فصل سروں کی اگانے چل تو دیے
مگر یہ پودا کبھی پھول پھل نہیں سکتا
رکھی خدا نے کوئی سل سی میرے سینے میں
سو اس میں پیار کا جذبہ مچل نہیں سکتا
وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تربتیں جن کی
دیا مزار پہ میرے تو جل نہیں سکتا
رشید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہںوں
کسی کلی کا مگر دل مسل نہیں سکتا۔
رشید حسرت
Comments
Post a Comment