Balakashan e Muhabbat Ki Yadgaar Hon Main
کلام =پروفیسر ڈاکٹر علامہ اقبال
کتاب =ابتدائ کلام اقبال
بہ ترتیب مہ و سال
بلاکشانِ محبت کی یادگار ہوں میں
مٹا ہوا خطِ لوحِ سرِ مزار ہوں میں
فنا ہوئے پہ بھی گویا وفا شعار ہوں میں
جو مٹ گیا تو حسینوں کا اعتبار ہوں میں
نگاہ سے نہ کہیں صبح کو اتر جاؤں
شبِ وصال کسی کے گلے کا ہار ہوں میں
نسیمِ صبح نہ چھیڑے مجھے کہ دامن سے
کسی کے ہاتھ کا جھاڑا ہوا غبار ہوں میں
نشے میں مست سمجھتا ہے مجھے کیوں واعظ ؟
وہ اپنا واعظ کہے جائے ہوشیار ہوں میں
تمہاری شوخ نگاہی نے پڑھ کے کیا پھونکا
قرار بھی مجھے آئے تو بیقرار ہوں میں
تڑپ کے شانِ کریمی نے لے لیا بوسہ
کہا جو سر کو جھکا کر,, گنہگار ہوں میں,,
کسی طرح مری بام تک رسائی ہو
فغانِ خاک نشینانِ کوئے یار ہوں میں
رہی نہ زہر میں اقبال !وہ پرانی بات
کسی کے ہجر میں جینے سے شرمسار ہوں
Comments
Post a Comment