Janazah Dhoom Se
جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے
اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے
قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے
ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا
جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے
کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے
عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے
مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے
نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے
وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے
چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے
ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں
کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے
پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر
نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے
تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے
کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے
دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے
عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے
عظیم رنجور آبادی
Comments
Post a Comment