Muhabbat Mein Sahar Ae Dil Baraai Nam Aati Hai Ye Woh Manzil Jis Manzil Mein Aksar Shaam Aati Hai
محبت میں سحر اے دل برائے نام آتی ہے
یہ وہ منزل ہے جس منزل میں اکثر شام آتی ہے
سفینہ جس جگہ ڈوبا تھا میرا بحر الفت میں
وہاں ہر موج اب تک لرزہ بر اندام آتی ہے
نہ جانے کیوں دل غم آشنا کو دیکھ لیتا ہوں
جہاں کانوں میں آواز شکست جام آتی ہے
دل ناداں یہی رنگیں ادائیں لوٹ لیتی ہیں
شفق کی سرخیوں ہی میں تو چھپ کر شام آتی ہے
محبت نے ہر اک سے بے تعلق کر دیا مجھ کو
تمہاری یاد بھی اب تو برائے نام آتی ہے
نہ جانے کون سی محفل میں اب تم جلوہ فرما ہو
نظر رہ رہ کے اٹھتی ہے مگر ناکام آتی ہے
غم دوراں سے مل جاتی ہے تھوڑی دیر کو فرصت
تصور میں جہاں اک جنت بے نام آتی ہے
بدل سکتا ہوں اس کا رخ مگر یہ سوچ کر چپ ہوں
تمہارا نام لے کر گردش ایام آتی ہے
لرز اٹھتے ہیں کونین اے مشیرؔ انجام الفت پر
جبین شوق اس کے در سے جب ناکام آتی ہے
مشیر جھنجھانوی
Comments
Post a Comment