Ya Rab Hoon Buhat Tang , Badal Charakh o Zameen Aur



نواب مرزا خاں داغ دہلوی
یا رب ہوں بہت تنگ، بدل چرخ و زمیں اور
یا پھینک دے دنیا سے نکلوا کے کہیں اور
صورت کو تری دیکھ کے یاد آتی ہے اس کی
آنکھوں میں مری پھرتی ہے ایک شکل حسیں اور
مسجد سے ہیں بت خانے کے انداز نرالے
در اور ہے، سر اور ہے، سنگ اور، جبیں اور
زخم دلِ مجروح میں زلفوں نے بھرا مشک
چھڑکے گا نمک اس پہ وہ حسنِ نمکیں اور
اللّٰہ کا گھر کعبے کو سب کہتے ہیں لیکن
دیتا ہے پتا اور، وہ ملتا ہے کہیں اور
حوروں کی تمنّا نہیں اے حضرتِ واعظ
ہم تاک میں ہیں جس کی وہ ہے پردہ نشیں اور
امیدِ شفاعت ہے مجھے روزِ قیامت
ارمان نہیں اس کے سوا اے شہہِ دیں اور
یہ در ہے یہ سر ہے یہِیں ہم جان بھی دیں گے
کیا جائیں گے مرنے کے لیے اٹھ کے کہیں اور
وہ آج بدلتے ہیں نیا سنگِ در اپنا
سجدے کے لیے چاہئے مجھ کو بھی جبیں اور
ہوتے ہیں بہت دفن گراں بارِ محبت
اک شاخ نکالے گی نئی گلو زمیں اور
غصّہ ہے بری چیز، برا کہنے سے اس کو
روکا اگر اک بات پہ، سو اس نے کہیں اور
مجھ کو نہیں ملتا، نہیں ملتا، نہیں ملتا
بہتر ہے تمہِی ڈھونڈ دو اپنا سا حسیں اور
خوش ہیں کہ وہاں خاک میں ملنے کے نہیں ہم
دنیا کی زمیں اور ہے، محشر کی زمیں اور
اس وہم سے وہ داغ کو مرنے نہیں دیتے
معشوق نہ مل جائے اسے زیرِ زمیں اور


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo