کتنے افسانوں کا ہوتا ہے جَنم رات گئے
بول اُٹھتے ہیں جو پتّھر کے صَنم رات گئے
ٹُوٹ جاتا ہے سِتاروں کا بَھرم رات گئے
جگمگاتے ہیں تِرے نقشِ قَدم رات گئے
کیا بتائیں جو گُزرتی ہے ہمارے دِل پر
یاد آتے ہیں جو اپنوں کے سِتم رات گئے
غرق ہو جاتی ہے جب نِیند میں ساری دُنیا
جاگ اُٹھتے ہیں ادِیبوں کے قَلم رات گئے
روز آتے ہیں صَدا دے کے چَلے جاتے ہیں
دِل کے دروازے پہ کُچھ اہلِ کَرَم رات گئے
روک لیتی ہے تِری یاد سہارا بن کر
ڈگمگاتے ہیں اگر میرے قَدم رات گئے
جِن کی اُمّید میں ہم دِن کو جِیا کرتے ہیں
ٹُوٹ جاتے ہیں وہی قول و قَسَم رات گئے
جِن کی قِسمت میں نہیں دِن کا اُجالا
اُن چراغوں میں جَلا کرتے ہیں ہم رات گئے.
سخن زاد
No comments:
Post a Comment