بہشت میں بھی پہنچ کر مجھے قرار نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہے مقامِ یار نہیں
کِتابِ عِشق کی تفسیر میں لِکھا دیکھا
نماز ہی نہیں جس میں خیالِ یار نہیں
یہ کہہ کے مُجھ کو لئیے جا رہا ہے ذوقِ سجود
کہ آج سر نہیں یا آستانِ یار نہیں
کبھی خیال کی زد میں تھا یار کا جلوہ
کہ اب ہے جلوہ ہی جلوہ خیالِ یار نہیں
مِلیں جو رکھنے کو سر پر کبھی مداسِ حبیب
قسم خدا کی کوئی مُجھ سا تاجدار نہیں
وہ کوہِ طُور ہو یا سرزمینِ دِل بیدم
جمالِ یار سے خالی کوئی دیار نہیں
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment