Mufahmat Na Sekha Jabar e Narawa Mujhe Main Sar Bakaf Hoon Lada Dy Kisi Bala Se Mujhe
مفاہمت نہ سکھا ، جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اُگل ڈالا
بہت سکون ملا ، تلخئِ نوا سے مجھے
رَچا ہُوا ہے بدن میں ابھی سرُورِ گناہ
ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے
میں خاک سے ہوں، مجھے خاک جذب کر لے گی
اگرچہ سانس ملے ، عمر بھر ہَوا سے مجھے
غذا اسی میں میری، مَیں اسی زمیں کی غذا
صدا پھر آتی ہے کیوں، پردۂِ خلا سے مجھے
میں جی رہا ہوں ابھی، اے زمیں آدم خور
ابھی تو دیکھ نہ ، تُو اتنی اشتہا سے مجھے
بکھر چکا ہوں میں، اب مجھ کو مجتمع کر لے
تو اب سمیٹ بھی اپنی کسی صدا سے مجھے
میں مر رہا ہوں، پھر آئے صدائے کُن فیکون
بنایا جائے مِٹا کے ، پھر ابتدا سے مجھے
میں سر بہ سجدہ ہوں، اے شمرؔ مجھکو قتل بھی کر
رہائی دے بھی اب ، اس عہدِ کربلا سے مجھے
میں کچھ نہیں ہوں تو پھر کیوں مجھے بنایا گیا
یہ پوچھنے کی ، اجازت نہیں خدا سے مجھے
میں ریزہ ریزہ بدن کا، اُٹھا رہا ہوں عدیمؔ
وہ توڑ ہی تو گیا ، اپنی التجا سے مجھے
عدیمؔ ہاشمی
Comments
Post a Comment