Murawaton Pe Wafa Ka Guman Bhi Rakhta Tha Woh Aadmi Tha Ghalat Fehmian Bhi Rakhta Tha
مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا
بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے
مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزام جاں بھی رکھتا تھا
ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلہ کیجے
یہی بہاؤ سفینے رواں بھی رکھتا تھا
تو یہ نہ دیکھ کہ سب ٹہنیاں سلامت ہیں
کہ یہ درخت تھا اور پتیاں بھی رکھتا تھا
ہر ایک ذرہ تھا گردش میں آسماں کی طرح
میں اپنا پاؤں زمیں پر جہاں بھی رکھتا تھا
لپٹ بھی جاتا تھا اکثر وہ میرے سینے سے
اور ایک فاصلہ سا درمیاں بھی رکھتا تھا
عرفان صدیقی
Comments
Post a Comment