رہ مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر یہ اہل نظر کا خیال ہوتا ہے
تلاش کرتی ہے سائے تمھارے آنچل کے
چمن میں باد صبا کا یہ حال ہوتا ہے
بہار فطرت صیاد کی کہانی ہے
کہ اس کے دوش پہ پھولوں کا جال ہوتا ہے
یہ واردات بھی اب دل پہ روز ہوتی ہے
مسرتوں میں بھی ہم کو ملال ہوتا ہے
یہ بکھرےبکھرے سے گیسو تھکی تھکی آنکھیں
کہ جیسے کوئی گلستاں نڈھال ہوتا ہے
جواب دے نہ سکیں جس کا دو جہاں ساغر
کسی غریب کے دل کا سوال ہوتا ہے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment