Ye Hai Maikadah Yahan Rind Hein Yahan Sab Ka Saqi Imam Hai
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اب اس میں کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہ جنابِ شیخ کا فلسفہ جو سمجھ میں میری نہ آ سکا
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
نہ سنا تو حور و قصور کی یہ حکایتیں مجھے واعظا
کوئی بات کر درِ یار کی درِ یار ہی سے تو کام ہے
تجھے اپنے حُسن کا واسطہ میرے شوقِ دید پہ رحم کھا
ذرا مسکرا کر نقاب اُٹھا کہ نظر کو شوقِ سلام ہے
کبھی میکدے میں جو آۓ وہ تو پلا دو تھوڑی سی شیخ کو
کہیں بھول جانا نا میکشو یہ بڑے ثواب کا کام ہے
نہ تو اعتکاف سے کچھ غرض نہ ثواب و زہد سے واسطہ
تیری دید ایسی نماز ہے نہ سجود ہے نہ قیام ہے
یہ درست کہ عیب ہے میکشی یہ بجا کہ بادہ حرام ہے
مگر اب سوال یہ آپڑا کہ تمھارے ہاتھ میں جام ہے
جو اٹھی تو صبحِ دوام تھی جو جھکی تو شام ہی شام تھی
تیری چشمِ مست میں ساقیا میری زندگی کا نظام ہے
میرا فرض ہے کہ پڑا رہوں تیری بارگاہ میں ساقیا
کوئی مست ہے کہ سیر ہے یہی دیکھنا تیرا کام ہے
اسی کائنات میں اے جگر کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
جگر مرادآبادی
Comments
Post a Comment