Sta Pu Anango Ke Du HAMZA Du Weeno Sru Di Tu Shwe Du Pukhto Ghazala Zwan Zu De Baba Kram



ستا پہ اننګو کې د حمزہ د وینو سره دي
تہ شوې د پښتو غزله ځوان زہ دې بابا کړم
Sta Pu Anango Ke Du HAMZA Du Weeno Sru Di
Tu Shwe Du Pukhto Ghazala Zwan Zu De Baba Kram

تیرے رخساروں میں حمزہ کے خون کی سرخی ہے
اے پشتو کی غزل تم جوان تو ہوگئی لیکن مجھے بوڑھا کرگئی

Tere Rukhsaron Mein HAMZA Ke Khoon Ki Surkhi Hai

Ae Pushto Ke Ghazal Tum Jawan Tou Ho Gai Lekin Mujhe Borha Kar Gai

بابائے غزل امیر #حمزہ خان بابا شینواری
پشتون قوم کا مشہور شاعر مصنف ادیب صوفی ڈرامہ نگار امیر حمزہ حان شنواری 1907ء میں میر باز خان کے گھر پیدا ہوے
خیبر ایجنسی لوراگئی لنڈی کوتل سے تعلوق تھا اپنا آبائی علاقہ بھی یہی تھا
 وہ پشتو زبان کا مشہور شاعر مصنف اور ادیب تھے
وہ بابائے غزل کے نام سے بھی جانے جاتے ہے
پشتو زبان کے ساتھ ساتھ ان کو اردو پے بھی کافی عبور حاصل تھا اور اس وجہ سے شاعری کی شروعات اردو شاعری سے کی
لیکن
بعد میں اپنے استاذ مخترم سید عبدالستار بادشاہ کے کہنے پے اردو کے بجاے پشتو میں شاعری شروع کی
 اور
وہاں سے اپنے زبان کی حدمت کا اغاز کیا اپنا ابتدائی تعلیم  اپنےگاوں کے سکول سے شروع کی
لیکن اس نے ایک چھوٹی غلطی کی اس وقت اس کا عمر تقریباً 7 سال تھا
 اور اس کو اپنے استاذ نے اتنا سزا دیا کہ اس کا دل تعلیم حاصل کرنے سے اٹھ گیا اور دل برداشتہ ہوگیا اور مجبورا وہ سکول چھوڑ دیا
 بعد میں پھر 8 سال کے عمر میں اسلامیہ کالجیٹ ہائی سکول سے میں داخلہ لیا
اور  میٹرک تک تعلیم وہاں حاصل کی تعلیم کے بعد ریلوے میں ملازمت کر لی
لیکن
1930ء میں والد کے انتقال پر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا
اور
روحانی پیشوا سید عبدالستار بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور انہی کی ہدایت پر اردو میں فکر سخن چھوڑ کر
پشتو شاعری شروع کی
ہم عصر شاعروں کے ساتھ مل کر بزم ادب قائم کی  جس کا نام پشتو ادبی ٹولنہ تھا
جس کی جناب سے عظیم شاعررحمان بابا کا عرس  منایا جانے لگا
1950ء میں اس بزم کو اولسی ادبی جرگہ میں ضم کر دیا گیا
 جس کے صدر امیر حمزہ منتخب ہوئے۔ رفیق غزنوی نے پشتو فلم سازی کی ابتدا کی تو پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں کے گانے اور مکالمے انہوں نے لکھے
ریڈیو پاکستان کے لیے بہت سے معاشرتی اور اصلاحی ڈرامے لکھے۔ پشتو غزل کو جدید رجحانات سے روشناس کرایا
پشتو نثر میں بھی بہت کچھ لکھا حمزہ بابا نے شاعری اور عزل کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سارے ڈرامے بھی لکھے
 جو تقریباً 200 کے قریب
اور اس میں زیادہ اس وقت پشاور ریڈیو سٹیشن کی طرف سے پیش کیے گیے تھے
تقریبا 1300 سے زیادہ غزل لکھے ہے اور ایسے جدید دور کے عجیب غزل لکھے اور اس پے اتنا عبور حاصل تھا
کہ
 اس کو ایسی وجہ سے بابائے غزل کا نام دیا گیااس کے ساتھ ساتھ اس نے کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے
اس میں ایک جو نجھل البلاغہ کے نام سے جس میں حضرت علی (a.s) کے تقاریر اور اقوال تھے اس کو ترجمہ کیا اور پبلیش بھی کردیا
حمزہ بابا نے تقریبا 20 کے سے زیادہ پشتو اور 10 کے قریب اردو زبان میں کتاب لکھے
جس میں کئی کے نام یہ ہے ان کی معروف تصانیف میں مندرجہ ذیل تصانیف شامل ہے
د زړه آواز
يون
بهير
پري وونی
سپرلی په آينه کې
د خيبر وږمې
ژوند او يون
د کابل سفرنامه
د حجاز په لور
د ليلا مجنون فلم او د فلم کيسه
مږې څپې
د کارل مارکس اصول د عقل په نظر
د حمزه ژوندليک
غزونې
تجليات
د خوشحال بابا يو شعر
تذکرة الستارية
انساني رڼا او پوهه
د حمزه ليکونه
غزليات (اردو)
انسان او زنده گي
د رحمان بابا د ديوان ژباړه په اردو نظم
د علامه اقبال د جاوېد نامې منظومه ژباړه
د ارمغان حجاز منظومه ژباړه
پټهان اور توهمات
قبايل کې رسم او رواج
ژور فکرونه
ډرامې
د حمزه کليات (پينځه ټوکه) اس کے علاوہ جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا پشتو ترجمہ بھی کیا خمزہ بابا 1994 فروری کے مہینے
 اور
18 تاريخ کو اس دنیا سے آحرت کی طرف چلے گیے وہ ادب فن کے بہت قدر کرتے تھے
 وہ ایک بہت ایماندار نیک انسان  سادہ انسان تھے  اپنی زندگی اصولوں پے گزاری اور ساری زندگی اپنے قوم اور پشتو زبان کی حدمت میں گزاری


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo