Pas e Deewar Thaktay Ja Rahe Hein Shareek e Kar Thakty Ja Rahe Hein
پسِ دیوار تھکتے جارہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں
کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں
خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں
خبر دشمن کو تازہ دم کرے گی
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں
کہیں ہے کچھ کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں
یہاں سچ کا کوئی گاہک نہیں ہے
بھرے بازار تھکتے جا رہے ہیں
بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں
محبت ہوتی پھر کچھ غم نہیں تھا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں
وہاں موقع ملا تو پھر ملیں گے
یہاں ہم یار تھکتے جا رہے ہیں
گنہ گاروں سے ابرک، کیا گلہ اب
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں
اتباف ابرک
Comments
Post a Comment