یوں تو پیر نصیر الدین نصیر شاہ صاحب کی ہر بات ہی شاہکار ہوتی ہے لیکن یہ غزل بھی کسی
"فن پارے" سے کم نہیں
آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
یا سَر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیے
یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیے
یُوں مَدھ بھری نگاہ اُٹھایا نہ کیجیے
پینا حرام ہے تو پِلایا نہ کیجیے۔۔۔
کہیئے تو آپ محو ہیں کس کے خیال میں
ہم سے تو دل کی بات چُھپایا نہ کیجیے۔
تیغِ ستم سے کام جو لینا تھا ،لے چکے
اہلِ وفا کا یوں تو صفایا نہ کیجیے۔۔
میں آپ کا ، گھر آپ کا ، آئیں ہزار بار
لیکن کسی کی بات میں آیا نہ کیجیے۔۔۔
اُٹھ جائیں گے ہم آپ ہی محفل سے آپ کی
دشمن کے رُوبرو تو بٹھایا نہ کیجیے۔۔۔۔۔
دل دور ہوں تو ہاتھ مِلانے سے فائدہ؟
رسماً کسی سے ہاتھ ملایا نہ کیجیے۔۔۔۔
محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیر
اُن بے حِسوں کو شعر سُنایا نہ کیجیے
سیّد نصیر الدین نصیر
Sayed Naseer ud Deen Naseer
No comments:
Post a Comment