December Chal Pada Ghar Se Suna Hai Pahonchnay Wala Hai
دسمبر چل پڑا گهر سے
سنا ہے پہنچنے کو ہے
مگر اس بار کچھ یوں ہے
کہ میں ملنا نہیں چاہتا
ستمگر سے
میرا مطلب، دسمبر سے
کبهی آزردہ کرتا تها
مجهے جاتا دسمبر بهی
مگر اب کے برس ہمدم
بہت ہی خوف آتا ہے
مجهے آتے دسمبر سے
ستمگر سے
دسمبر جو کبهی مجهکو
بہت محبوب لگتا تها
وہی سفاک لگتا ہے
بہت بیباک لگتا ہے
ہاں اس سنگدل مہینے سے
مجهے اب کے نہیں ملنا
قسم اسکی... نہیں ملنا
مگر سنتا ہوں یہ بهی میں
کہ اس ظالم مہینے کو
کوئی بهی روک نہ پایا
نہ آنے سے، نہ جانے سے
صدائیں یہ نہیں سنتا
وفائیں یہ نہیں کرتا
یہ کرتا ہے فقط اتنا
سزائیں سونپ جاتا ہے
Comments
Post a Comment