Na Unke Lab Se Koi Aah Nikli Nah Zabt Ka Koi Hisaar Toota
نہ اُنکے لب سے کوئی آہ نکلی
نہ ضبط کا کوئی حصار ٹُوٹا
اب غم کے ماروں کو سہنے ہوں گے
نئی رُتوں کے عذاب سارے
بہار رُت میں وہ جب ملے گا
ہوں گے عہد و پیمان پھر سے
خزاں کی رُت سے سنبھال رکھے ہیں
اُسکی خاطر گلاب سارے
وہ تِشنہ لب ہے نچوڑ لے گا
میرے لبوں سے پیاس ساری
کہ اُسکی خاطر سنبھال رکھے ہیں
میں نے ابتک شباب سارے
پاکیزہ جذبوں کی لاج رکھ لے
کبھی تو مل جا اے میرے ہمدم
ہجر تیرے میں ہوں بھول بیٹھی
وفا کے ابتک آداب سارے
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے
ہجر تیرے میں یہ آنکھ پُرنم
چُکانے ہوں گے کبھی تو تُمکو
گئے دنوں کے حساب سارے
از قلم
عمران باجوہ
Comments
Post a Comment