Aa Lagti Kinare Se Meri Kashti e Jaan Bhi Shayed Keh Mere Pavoun Mein Gardaab Buhat Thay
آ لگتی کنارے سے مری کشتیٔ جاں بھی
شاید کہ مرے پاؤں میں گرداب بہت تھے
بے نام ہوئے نام کی تکریم کے ہاتھوں
پہچانتا کیا کوئی کہ القاب بہت تھے
افسوس تموج انہیں ساحل پہ نہ لایا
انمول گہر ورنہ تہہ آب بہت تھے
ہر لحظہ بدلتی ہوئی رت بس میں نہیں تھی
جوبن پہ تھی برسات تو شاداب بہت تھے
کچھ ہم بھی بہت سے گئے نمناک ہوا میں
کچھ تم بھی تو آمادۂ ایجاب بہت تھے
خالد اقبال یاسر
Comments
Post a Comment