Kuhsar Se Takraaye Hoe Behta Hai Darya



آیک تازہ غزل احباب کے زوق مطالعہ کی نذر
کہسار سے ٹکرائے ہوئے بہتا ہے دریا
منزل کی طرف اپنی رواں رہتا ہے دریا

طوفان بلا خیز مچا دیں مرے آنسو
آنکھوں میں مری بند مگر رہتا ہے دریا

کشتی کو ڈبونے سے بھرم اپنا ہے قائم
ہر موج سے اک بات یہی کہتا ہے دریا

درے سے گزرتا ہے بڑے غیض ؤ غضب سے
میدان میں چپ چاپ مگر رہتا ہے دریا

انساں کی ضرورت ہے یہاں پل وہ بنائے
دریا کی یہ فطرت کہ اسے ڈہتا ہے دریا

جب چاند اتر آتا ہے دریا کے افق پر
موج طرب انگیز لیے بہتا ہے دریا

اب جوش تلاطم سے میں گھبراتا نہیں میر
بپھری ہوئ موجوں سے یہ خود کہتا ہے دریا


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo