Chand Sikkon Ki Chamak Se Jo Behal Sakta Hai Woh Kisi Mod Pe Bhi Raah Badal Sakta Hai
چند سکوں کی چمک سے جو بہل سکتا ہے
وہ کسی موڑ پہ بھی راہ بدل سکتا ہے
دھوپ سے اس کو بچاتے ہوئے کب سوچا تھا
میرا حاسد مرے سائے سے بھی جل سکتا ہے
عمر بھر روتا رہا آنکھ مگر نم نہ ہوئی
یہ وہ کوزہ ہے جو دریا بھی نگل سکتا ہے
صرف ظاہر پہ نہ جا دیکھ ذرا اندر بھی
سیپ کے سینے سے موتی بھی نکل سکتا ہے
پہلی پرواز سے گرنے پہ نہ دل چھوٹا کر
پر ملے ہیں تو کہیں پر بھی سنبھل سکتا ہے
میں ترے ہاتھ میں ہوں موم تو حیرت کیسی
اس حرارت میں تو پتھر بھی پگھل سکتا ہے
ان پہ الفاظ کا اسراف کروں کیوں عامرؔ
میرے چپ رہنے سے دل جن کا دہل سکتا ہے
محمد عامر جعفری
Muhammad Aamir Ja'afri
Comments
Post a Comment