Sadiyun Ka Intezar Diya Pal Ki Aas Ne Sadmay Buhat Uthaye Dil e Na-Sepas Ne
صدیوں کا انتظار دیا پَل کی آس نے
صدمے بہت اُٹھاۓ دلِ نا سپاس نے
وہ شخص نہ ملے گا کبھی بُھول جا اُسے
مُجھ سے کہا تھا ایک ستارہ شناس نے
دریا کا رَخ بدلتے ہی تہذیب مٹ گئی
تودے اُٹھاۓ ریت کے صحرا کی گھاس نے
کیوں کر پڑھوں کتاب تری کائنات کی
مَبہوت کر دیا ہے مجھے اِقتباس نے
پھولوں کو جانے کس لیے شبنم سے ہے گلہ
دریا نگل لیے ہیں سمندر کی پیاس نے
تہذیب نے اعداد کی پوشاک اوڑھ لی
برہنہ کر دیا ہے نئے اِس لباس نے
بدلیں نہ مگر آدمی کی عادتیں کبھی
ارشد سبق سکھاۓ بہت اتّہاس نے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Adyan , Pynsilvinia , U.S.A
جنوری ٢٦، ٢٠٢٣
Comments
Post a Comment