Satatay Hein Dil Nashad Ko Phir Shad Karte Hein
ستاتے ہیں دلِ ناشاد کو پھر شاد کرتے ہیں
کرم کے رُوپ میں وہ آۓ دن بیدار کرتے ہیں
پسِ مُردن جو ہیں آسودہ خاک اُن کے کوچے میں
وہ اب کیوں اُن کی مٹّی اِس طرح برباد کرتے ہیں
دل اُن کا، جان اُن کی ، جو کہیں،تیار ہیں قاصد!
ﺫرا تم پوچھ لو اُن سے، وہ کیا ارشاد کرتے ہیں
یہ خنجر آزمائی اور تم ؟ توبہ ارے توبہ
چلو، چھوڑو، ہٹو، یہ کام تو جلّاد کرتے ہیں
رہی گنجائش اپنی اب نہ مسجد میں، نہ مندر میں
اُٹھو! اپنا الگ اک میکدہ آباد کرتے ہیں
یہ مانا ہو گئی ہے مُستقل دُوری ، مگر اب تک
وہ ہم کو یاد کرتے ہیں، ہم اُن کو یاد کرتے ہیں
نصیرؔ اچھا ہُوا جو کچھ ہُوا دنیاۓ الفت میں
مِرے احباب کیا ﺫکرِ دلِ ناشاد کرتے ہیں
پیر نصیر الدین نصیر
Comments
Post a Comment