Udas Aankhon Mein Aansoo Chupa Ke Daikha Kisi Ne Aaj Humain Muskura Ke Daikha Hai
اُداس آنکھوں میں آنسو چھپا کے دیکھا ہے
کسی نے آج ہمیں مسکرا کے دیکھا ہے
ابھی تو مرحلے آئیں گے اور حیرت کے
محبتّوں کو کبھی آزما کے دیکھا ہے
بہت حسین ہے شاید وہ سر زمینِ عدم
پلٹ کے آتا نہیں جس نے جا کے دیکھا ہے
ہے دکھ بچھڑنے کا ساقی سے یا خُمارِ اجَل
کہ میکدے کی طرف لڑکھڑا کے دیکھا ہے
فلک پہ کوئی بھی ارشد نہیں ہے آخر شب
ہمیں ستارے نے اک ٹِمٹِما کے دیکھا ہے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Adyan , Pynsilvinia , U.S.A
جنوری ١٣، ٢٠٢٣
Comments
Post a Comment